(1) اس آیت میں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو کفار اور منافقین سے جہاد اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) کے بعد اس کے مخاطب آپ (صلى الله عليه وسلم) کی امت ہے، کافروں کے ساتھ منافقین سے بھی جہاد کرنے کا حکم ہے، اس کی بابت اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہی ہے کہ اگر منافقین کا نفاق اور ان کی سازشیں بےنقاب ہوجائیں تو ان سے بھی اس طرح جہاد کیا جائے، جس طرح کافروں سے کیا جاتا ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ منافقین سے جہاد یہ ہے کہ انہیں زبان سے وعظ ونصیحت کی جائے۔ یا وہ اخلاقی جرائم کارتکاب کریں تو ان پر حدود نافذ کی جائیں تیسری رائے یہ ہے کہ جہاد کا حکم کفار سے متعلق ہے اور سختی کرنے کا منافقین سے امام ابن کثیر فرماتے ہیں ان آراء میں آپس میں کوئی تضاد اور منافات نہیں اس لیے کہ حالات و ظروف کے مطابق ان میں سے کسی بھی رائے پر عمل کرناجائز ہے۔
(2) ”غِلظَة“ رَأفة کی ضد ہے، جس کے معنی نرمی اور شفقت کرنے کے ہیں۔ اس اعتبار سے غلظۃ کے معنی سختی اور قوت سے دشمنوں کے خلاف اقدام ہے۔ محض زبان کی سختی مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ تو نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے اخلاق کریمانہ کے ہی خلاف ہے، اسے آپ (صلى الله عليه وسلم) اختیار کر سکتے تھے نہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کا حکم آپ کو مل سکتا تھا۔
(3) جہاد اور سختی کے حکم کا تعلق دنیا سے ہے۔ آخرت میں ان کے لئے جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے۔
(1) مفسرین نے اس کی تفسیر میں متعدد واقعات نقل کئے ہیں، جن میں منافقین نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے جسے بعض مسلمانوں نے سن لیا اور انہوں نے آکر نبی (صلى الله عليه وسلم) کو بتلایا، لیکن آپ کے استفسار پر مکر گئے بلکہ حلف تک اٹھا لیا کہ انہوں نے ایسی بات نہیں کی۔ جس پر یہ آیت اتری۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی شان میں گستاخی کرنا کفر ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) کی شان میں گستاخی کرنے والا مسلمان نہیں رہ سکتا۔
(2) اس کی بابت بھی بعض واقعات نقل کئے گئے ہیں۔ مثلاً تبوک کی واپسی پر منافقین نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے خلاف ایک سازش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے کہ دس بارہ منافقین ایک گھاٹی میں آپ کے پیچھے لگ گئے جہاں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) باقی لشکر سے الگ تقریباً تنہا گزر رہے تھے ان کا منصوبہ یہ تھا کہ آپ پر حملہ کر کے آپ کا کام تمام کر دیں گے اس کی اطلاع وحی کے ذریعے سے آپ کو دے دی گئی جس سے آپ نے بچاؤ کر لیا۔
(3) مسلمانوں کی ہجرت کے بعد، مدینہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے وہاں تجارت اور کاروبار کو بھی فروغ ملا، اور اہل مدینہ کی معاشی حالت بہت اچھی ہوگئی تھی۔ منافقین مدینہ کو بھی اس کا خوب فائدہ حاصل ہوا اللہ تعالٰی اس آیت میں یہی فرما رہا ہے کہ کیا ان کو اس بات کی ناراضگی ہے کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے غنی بنا دیا ہے، بلکہ ان کو تو اللہ تعالٰی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انہیں تنگ دستی سے نکال کر خوش حال بنا دیا۔
ملحوظہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کا ذکر اس لئے ہے کہ اس غنا اور تونگری کا ظاہری سبب رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی ذات گرامی ہی بنی تھی، ورنہ حقیقت میں غنی بنانے والا تو اللہ تعالیٰ ہے تھا۔ اس لئے آیت میں من فضلہ، واحد کی ضمیر ہے کہ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں غنی کردیا۔
(1) اس آیت کو بعض مفسرین نے ایک صحابی حضر ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں قرار دیا ہے لیکن سندا یہ صحیح نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس میں بھی منافقین کا ایک اور کردار بیان کیا گیا ہے۔
(1) اس میں منافقین کے لئے سخت وعید ہے جو اللہ تعالٰی سے وعدہ کرتے ہیں اور پھر اس کی پرواہ نہیں کرتے گویا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ان کی مخفی باتوں اور بھیدوں کو نہیں جانتا۔ حالانکہ اللہ تعالٰی سب کچھ جانتا ہے، کیونکہ وہ تو علام الغیوب ہے۔ غیب کی تمام باتوں سے باخبر ہے۔
(1) مُطَّوِّعِينَ کے معنی ہیں صدقات واجبہ کے علاوہ اپنی خوشی سے مزید اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے،”جہد“ کے معنی محنت ومشقت کے ہیں یعنی وہ لوگ جو مال دار نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی محنت و مشقت سے کمائے ہوئے تھوڑے مال میں سے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ آیت میں منافقین کی ایک اور نہایت قبیح حرکت کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جب رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) جنگ وغیرہ کے موقع پر مسلمانوں سے چندے کی اپیل فرماتے تو مسلمان آپ کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے حسب استطاعت اس میں حصہ لیتے کسی کے پاس زیادہ مال ہوتا وہ زیادہ صدقہ دیتا جس کے پاس تھوڑا ہوتا، وہ تھوڑا دیتا، یہ منافقین دونوں قسم کے مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے زیادہ دینے والوں کے بارے میں کہتے اس کا مقصد ریاکاری اور نمود و نمائش ہے اور تھوڑا دینے والوں کو کہتے کہ تیرے اس مال سے کیا بنے گا یا اللہ تعالٰی تیرے اس صدقے سے بے نیاز ہے (صحيح بخاري، تفسير سورة توبة - مسلم- كتاب الزكاة، باب الحمل أجرة يتصدق بها...) یوں وہ منافقین مسلمانوں کا استہزاکرتے اور مذاق اڑاتے۔
(2) یعنی مومنین سے استہزا کا بدلہ انہیں اس طرح دیتا ہے کہ انہیں ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ اس کا تعلق باب مشاکلت سے ہے جو علم بلاغت کا ایک اصول ہے یا یہ بددعا ہے اللہ تعالٰی ان سے بھی استہزا کا معاملہ کرے جس طرح یہ مسلمانوں کے ساتھ استہزا کرتے ہیں۔ (فتح القدیر)