Traducción de los significados del Sagrado Corán - Traducción al urdu - Muhammad Gunakry

Número de página:close

external-link copy
123 : 9

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً ؕ— وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ۟

اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں(1) اور ان کو تمہارے اندر سختی پانا چاہئے(2)۔ اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔ info

(1) اس میں کافروں سے لڑنے کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے۔ کہ الأَوَّلُ فَالأَوَّلُ اور الأَقْرَبُ فَالأَقْرَبُ کے مطابق کافروں سے جہاد کرنا ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے پہلے جزیرہ، عرب میں آباد مشرکین سے قتال کیا، جب ان سے فارغ ہوگئے اور اللہ تعالٰی نے مکہ، طائف، یمن، یمامہ، ہجر، خیبر، حضر موت وغیرہ ممالک پر مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما دیا اور عرب کے سارے قبائل فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے، تو پھر اہل کتاب سے قتال کا آغاز فرمایا اور 9 ہجری میں رومیوں سے قتال کے لئے تبوک تشریف لے گئے جو جزیرہ، عرب سے قریب ہے اسی کے مطابق آپ (صلى الله عليه وسلم) کی وفات کے بعد خلفائے راشدین نے روم کے عیسائیوں سے قتال فرمایا، اور ایران کے مجوسیوں سے جنگ کی۔
(2) یعنی کافروں کے لئے، مسلمانوں کے دلوں میں نرمی نہیں سختی ہونی چاہیے جیسا کہ «اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ» (الفتح: 29) صحابہ کی صفت بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح «اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ» ( المائدہ: 54) اہل ایمان کی صفت ہے۔

التفاسير:

external-link copy
124 : 9

وَاِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖۤ اِیْمَانًا ۚ— فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّهُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ ۟

اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیاده کیا ہے(1) ، سو جو لوگ ایمان والے ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیاده کیا ہے اور وه خوش ہورہے ہیں۔(2) info

(1) اس سورت میں منافقین کے کردار کی نقاب کشائی کی گئی ہے، یہ آیات اس کا بقیہ اور تتمہ ہیں۔ اس میں بتلایا جا رہا ہے جب ان کی غیر موجودگی میں کوئی سورت یا اس کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے اور ان کے علم میں بات آتی تو وہ استہزاء اور مذاق کے طور پر آپس میں ایک دوسرے سے کہتے کہ اس سے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے؟۔
(2) اللہ تعالٰی نے فرمایا، جو بھی سورت اترتی ہے اس سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے ایمان کے اضافے پر خوش ہوتے ہیں۔ یہ آیت بھی اس بات پر دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے جس طرح کہ محدثین کا مسلک ہے۔

التفاسير:

external-link copy
125 : 9

وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلٰی رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَهُمْ كٰفِرُوْنَ ۟

اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی اور وه حالت کفر ہی میں مر گئے۔(1) info

(1) روگ سے مراد نفاق اور آیات الٰہی کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔ فرمایا: البتہ یہ سورت منافقین کو ان کے نفاق اور خبث میں اور بڑھاتی اور وہ اپنے کفر و نفاق میں اس طرح پختہ تر ہو جاتے ہیں کہ انہیں توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہوتا ہے جس طرح اللہ تعالٰی نے دوسرے مقام پر فرمایا :”ہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لئے شفا اور رحمت ہیں۔ لیکن اللہ تعالٰی ان ظالموں کے خسارے میں اضافہ ہی فرماتا ہے“۔ (بنی اسرائیل: 82) یہ گویا ان کی بدبختی کی انتہا ہے کہ جس سے لوگوں کے دل ہدایت پاتے ہیں۔ وہی باتیں ان کی ضلالت و ہلاکت کا باعث ثابت ہوتی ہیں جس طرح کسی شخص کا مزاج اور معدہ بگڑ جائے، تو وہی غذائیں، جن سے لوگ قوت اور لذت حاصل کرتے ہیں، اس کی بیماری میں مزید بگاڑ اور خرابی کا باعث بنتی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
126 : 9

اَوَلَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَلَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ ۟

اور کیا ان کو نہیں دکھلائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں(1) پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں۔ info

(1) يُفْتَنُونَ کے معنی ہیں آزمائے جاتے ہیں۔ آفت سے مراد یا تو آسمانی آفات ہیں مثلًا قحط سالی وغیرہ (مگر یہ بعید ہے) یا جسمانی بیماریاں اور تکالیف ہیں یا غزوات ہیں جن میں شرکت کے موقع پر ان کی آزمائش ہوتی تھی۔ سیاق کلام کے اعتبار سے یہ مفہوم زیادہ صحیح ہے۔

التفاسير:

external-link copy
127 : 9

وَاِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ اِلٰی بَعْضٍ ؕ— هَلْ یَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا ؕ— صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ ۟

اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں کہ تم کو کوئی دیکھتا تو نہیں پھر چل دیتے ہیں(1) اللہ تعالیٰ نے ان کا دل پھیر دیا ہے اس وجہ سے کہ وه بے سمجھ لوگ ہیں۔(2) info

(1) یعنی ان کی موجودگی میں سورت نازل ہوتی جس میں منافقین کی شرارتوں اور سازشوں کی طرف اشارہ ہوتا تو پھر یہ دیکھ کر کہ مسلمان انہیں دیکھ تو نہیں رہے، خاموشی سے کھسک جاتے۔
(2) یعنی آیات الٰہی میں غور و تدبر نہ کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں کو خیر اور ہدایت سے پھیر دیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
128 : 9

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ۟

تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف ﻻئے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں(1) جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے(2) جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں(3) ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔(4) info

(1) سورت کے آخر میں مسلمانوں پر نبی کی صورت میں جو احسان عظیم فرمایا گیا، اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ تمہاری جنس سے یعنی جنس بشریت سے ہیں (وہ نور یا اور کچھ نہیں) جیسا کہ فساد عقیدہ کے شکار لوگ عوام کو اس قسم کے گورکھ دھندے میں پھنساتے ہیں۔
(2) عَنَتٌ ایسی چیزیں جن سے انسان کو تکلیف ہو، اس میں دنیاوی مشقتیں اور آخروی عذاب دونوں آجاتے ہیں، اس پیغمبر پر، تمہاری ہر قسم کی تکلیف و مشقت گراں گزرتی ہے۔ اسی لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرما: ”میں آسان دین حنیفی دے کر بھیجا گیا ہوں“۔ (مسند احمد۔ جلد 5، ص 266، جلد 6 ص 233) ایک اور حدیث میں فرمایا: «إِنَّ هَذَا الدِّينَ يُسْرٌ»، ”بیشک یہ دین آسان ہے“۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الایمان)
(3) تمہاری ہدایت اور تمہاری دینوی آخروی کے فائدے کے خواہشمند ہیں اور تمہارا جہنم میں جانا پسند نہیں فرماتے۔ اسی لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ”میں تمہیں تمہاری پشتوں سے پکڑ پکڑ کر کھنچتا ہوں لیکن تم مجھ سے دامن چھڑا کر زبردستی نار جہنم میں داخل ہوتے ہو“۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب نمبر 26 الانتهاء من المعاصی)
(4) یہ آپ کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے۔ یہ ساری خوبیاں آپ کے اعلٰی اخلاق اور کریمانہ صفات کی مظہر ہیں۔ یقینا آپ (صلى الله عليه وسلم) صاحب خلق عظیم ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
129 : 9

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ ۖؗ— لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ؕ— عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ۟۠

پھر اگر رو گردانی کریں(1) تو آپ کہہ دیجیئے کہ میرے لیے اللہ کافی ہے(2)، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وه بڑے عرش کا مالک ہے۔(3) info

(1) یعنی آپ کی لائی ہوئی شریعت اور دین رحمت سے۔
(2) جو کفر و اعراض کرنے والوں کے مکرو کید سے مجھے بچا لے گا۔
(3) حضرت ابو الدردا(رضي الله عنه) فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ آیت حَسْبِیَ اللّٰہُ (الآیۃَ) صبح اور شام سات سات مرتبہ پڑھ لے گا، اللہ تعالٰی اس کے ہموم (فکر ومشکلات) کو کافی ہو جائے گا۔ (سنن ابی داود۔ نمبر 5081)

التفاسير: