Traducción de los significados del Sagrado Corán - Traducción al urdu - Muhammad Gunakry

Número de página:close

external-link copy
100 : 9

وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ— رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا ؕ— ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۟

اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں(1) اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے(2) یہ بڑی کامیابی ہے۔ info

(1) اس میں تین گروہوں کا ذکر ہے ایک مہاجرین کا جنہوں نے دین کی خاطر، اللہ اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کے حکم پر مکہ اور دیگر علاقوں سے ہجرت کی اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینہ آگئے دوسرا انصار جو مدینہ میں رہائش پذیر تھے انہوں نے ہر موقع پر رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی مدد اور حفاظت فرمائی اور مدینہ آنے والے مہاجرین کی خوب پذیرائی اور تواضع کی۔ اور اپنا سب کچھ ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ یہاں ان دو گروہوں کے سابقون الاولون کا ذکر فرمایا ہے، یعنی دونوں گروہوں میں سے وہ افراد جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں سب سے پہلے سبقت کی۔ اس کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک سابقون الاولون وہ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی۔ یعنی تحویل قبلہ سے پہلے مسلمان ہونے والے مہاجرین و انصار۔ بعض کے نزدیک یہ وہ صحابہ (رضي الله عنهم) ہیں جو حدیبیہ میں بیعت رضوان میں حاضر تھے۔ بعض کے نزدیک یہ اہل بدر ہیں۔ امام شوکانی فرماتےہیں کہ یہ سارے ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو ان مہاجرین و انصار کے خلوص اور احسان کے ساتھ پیروکار ہیں۔ اس گروہ سے مراد بعض کے نزدیک اصطلاحی تابعین ہیں جنہوں نے نبی (صلى الله عليه وسلم) کو نہیں دیکھا لیکن صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کی صحبت سے مشرف ہوئے اور بعض نے اسے عام رکھا یعنی قیامت تک جتنے بھی انصار و مہاجرین سے محبت رکھنے والے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے مسلمان ہیں، وہ اس میں شامل ہیں۔ ان میں اصطلاحی تابعین بھی آجاتے ہیں۔
(2) اللہ تعالٰی ان سے راضی ہوگیا کا مطلب ہے۔ کہ اللہ تعالٰی نے ان کی نیکیاں قبول فرما لیں، ان کی بشری لغزشوں کو معاف فرما دیا اور وہ ان پر ناراض نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے لئے جنت کی نعمتوں کی بشارت کیوں دی جاتی؟، جو اس آیت میں دی گئی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ رضائے الٰہی مؤقت اور عارضی نہیں، بلکہ دائمی ہے اگر رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے بعد صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کو مرتد ہوجانا تھا (جیسا کہ ایک باطل ٹولے کا عقیدہ ہے) تو اللہ تعالیٰ انہیں جنت کی بشارت سے نہ نوازتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جب اللہ نے ان کی ساری لغزشیں معاف فرمادیں تو اب تنقیص و تنقید کے طور پر ان کی کوتاہیوں کا تذکرہ کرنا کسی مسلمان کی شان کے لائق نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی محبت اور پیروی رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے اور ان سے عداوت اور بغض و عناد رضائے الٰہی سے محرومی کا باعث ہے۔ «فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ»۔

التفاسير:

external-link copy
101 : 9

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ۛؕ— وَمِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ ؔۛ۫— مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ ۫— لَا تَعْلَمُهُمْ ؕ— نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ؕ— سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ ۟ۚ

اور کچھ تمہارے گردوپیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے(1) ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے(2)، ان کو ہم جانتے ہیں ہم ان کو دہری سزا دیں گے(3)، پھر وه بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے۔ info

(1) مَرَدَ اور تَمَرَّدَ کے معنی ہیں نرمی ملائمت (چکناہٹ) اور تجرد۔ چنانچہ اس شاخ کو جو بغیر پتے کے ہو، وہ گھوڑا جو بغیر بال کے ہو، وہ لڑکا جس کے چہرے پر بال نہ ہوں، ان سب کو اَمْرَدُ کہا جاتا ہے اور شیشے کو صَرْح مُمَرَّد اَیْ مُجَرَّدً کہا جاتا ہے۔ ”مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ“ کے معنی ہوں گے تَجَرَّدُوا عَلیَ النِّفَاقِ، گویا انہوں نے نفاق کے لئے اپنے آپ کو خالص اور تنہا کر لیا، یعنی اس پر ان کا اصرار اور استمرار ہے۔
(2) کتنے واضح الفاظ میں نبی (صلى الله عليه وسلم) سے علم غیب کی نفی ہے۔ کاش اہل بدعت کو قرآن سمجھنے کی توفیق نصیب ہو۔
(3) اس سے مراد بعض کے نزدیک دنیا کی ذلت و رسوائی اور پھر آخرت کا عذاب ہے اور بعض کے نزدیک دنیا میں ہی دوہری سزا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
102 : 9

وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًا ؕ— عَسَی اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟

اور کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں(1) جنہوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے(2)۔ اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے(3)۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت واﻻ بڑی رحمت واﻻ ہے۔ info

(1) یہ وہ مخلص مسلمان ہیں جو بغیر عذر کے محض تساہل کی وجہ سے تبوک میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ نہیں گئے بلکہ بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، اور اعتراف گناہ کر لیا۔
(2) بھلے سے مراد وہ اعمال صالحہ ہیں جو جہاد میں پیچھے رہ جانے سے پہلے کرتے رہے ہیں جن میں مختلف جنگوں میں شرکت بھی کی اور 'کچھ برے' سے مراد یہی تبوک کے موقع پر ان کا پیچھے رہنا۔
(3) اللہ تعالٰی کی طرف سے امید، یقین کا فائدہ دیتی ہے، یعنی اللہ تعالٰی ان کی طرف رجوع فرما کر ان کے اعتراف گناہ کو توبہ کے قائم مقام قرار دے کر انہیں معاف فرما دیا۔

التفاسير:

external-link copy
103 : 9

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ ؕ— اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ؕ— وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۟

آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے(1) ، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے خوب جانتا ہے۔ info

(1) یہ حکم عام ہے۔ صدقے سے مراد فرضی صدقہ یعنی زکٰوۃ بھی ہوسکتی ہے اور نفلی صدقہ بھی۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) کو کہا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے سے آپ مسلمانوں کو تطہیر اور ان کا تزکیہ فرما دیں۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زکٰوۃ و صدقات انسان کے اخلاق و کردار کی طہارت و پاکیزگی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ علاوہ ازیں صدقے کو صدقہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ خرچ کرنے والا اپنے دعوائے ایمان میں صادق ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ وصول کرنے والے کو صدقہ لینے والے کے حق میں دعائے خیر کرنی چاہیے۔ جس طرح یہاں اللہ تعالٰی نے اپنے پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) کو دعا کرنے کا حکم دیا، اور آپ (صلى الله عليه وسلم) اس کے مطابق دعا فرمایا کرتے تھے۔ اس حکم کے عموم سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ زکوۃ کی وصولی امام وقت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی اس سے انکار کرے تو حضرت ابو بکر صدیق (رضي الله عنه) اور صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کے طرز عمل کی روش میں اس کے خلاف جہاد ضروری ہے۔ (ابن کثیر)

التفاسير:

external-link copy
104 : 9

اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ۟

کیا ان کو یہ خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے(1) اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے میں اور رحمت کرنے میں کامل ہے۔ info

(1) صدقات قبول فرماتا ہے کا مطلب (بشرطیکہ وہ حلال کی کمائی سے ہو) اس میں اضافہ فرماتا ہے۔ جس طرح حدیث میں آیا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا : ”اللہ تعالٰی تمہارے صدقے کی اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچے کی پرورش کرتا ہے، حتٰی کہ ایک کھجور کے برابر صدقہ (بڑھ بڑھ کر) احد پہاڑ کی مثل ہو جاتا ہے“۔ (صحیح بخاری، کتاب الزکٰوۃ، ومسلم، کتاب الزکٰوۃ)

التفاسير:

external-link copy
105 : 9

وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ؕ— وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۟ۚ

کہہ دیجئے کہ تم عمل کیے جاؤ تمہارے عمل اللہ خود دیکھ لے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے (بھی دیکھ لیں گے) اور ضرور تم کو ایسے کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے واﻻ ہے۔ سو وه تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلا دے گا۔(1) info

(1) رؤیت کا مطلب دیکھنا اور جاننا ہے۔ یعنی تمہارے عملوں کو اللہ تعالٰی ہی نہیں دیکھتا، بلکہ ان کا علم اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم) اور مومنوں کو بھی (بذریعہ وحی) ہو جاتا ہے (یہ منافقین ہی کے ضمن میں کہا جا رہا ہے) اس مفہوم کی آیت پہلے بھی گزر چکی ہے۔ یہاں مومنین کا بھی اضافہ ہے جن کو اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم) کے بتلانے سے علم ہو جاتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
106 : 9

وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَاِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْهِمْ ؕ— وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ۟

اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کے حکم آنے تک ملتوی ہے(1) ان کو سزا دے گا(2) یا ان کی توبہ قبول کرلے گا(3)، اور اللہ خوب جاننے واﻻ ہے بڑا حکمت واﻻ ہے۔ info

(1) جنگ تبوک میں پیچھے رہنے والے ایک تو منافق تھے، دوسرے وہ جو بلا عذر پیچھے رہ گئے تھے۔ اور انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تھا لیکن انہیں معافی عطا نہیں کی گئی تھی، اس آیت میں اس گروہ کا ذکر ہے جن کے معاملے کو مؤخر کر دیا گیا تھا (یہ تین افراد تھے، جن کا ذکر آگے آرہا ہے)۔
(2) اگر وہ اپنی غلطی پر مصر رہے۔
(3) اگر وہ خالص توبہ کرلیں گے۔

التفاسير: