Traducción de los significados del Sagrado Corán - Traducción al urdu - Muhammad Gunakry

Número de página:close

external-link copy
87 : 9

رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَفْقَهُوْنَ ۟

یہ تو خانہ نشین عورتوں کاساتھ دینے پر ریجھ گئے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اب وه کچھ سمجھ عقل نہیں رکھتے۔(1) info

(1) دلوں پر مہر لگ جانا یہ مسلسل گناہوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے، اس کے بعد انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو جاتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
88 : 9

لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ ؕ— وَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْخَیْرٰتُ ؗ— وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۟

لیکن خود رسول اللہ اور اس کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ info
التفاسير:

external-link copy
89 : 9

اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ؕ— ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۟۠

ان کے لئے اللہ نے وه جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔(1) info

(1) ان منافقین کے برعکس اہل ایمان کا رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں انہیں اپنی جانوں کی پروا ہے نہ مالوں کی۔ ان کے نزدیک اللہ کا حکم سب پر بالا تر ہے، انہی کے لئے خیرات ہیں، یعنی آخرت کی بھلائیاں اور جنت کی نعمتیں اور بعض کے نزدیک دین و دنیا کے منافع اور یہی لوگ فلاح یاب اور فوز عظیم کے حامل ہونگے۔

التفاسير:

external-link copy
90 : 9

وَجَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ؕ— سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۟

بادیہ نشینوں میں سے عذر والے لوگ حاضر ہوئے کہ انہیں رخصت دے دی جائے اور وه بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹی باتیں بنائی تھیں۔ اب تو ان میں جتنے کفار ہیں انہیں دکھ دینے والی مار پہنچ کر رہے گی۔(1) info

(1) ان مُعَذِّرِين کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ شہر سے دور رہنے والے وہ اعرابی ہیں جنہوں نے جھوٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کی۔ دوسری قسم ان میں وہ تھی جنہوں نے آکر عذر پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور بیٹھے رہے۔ اس طرح گویا آیت میں منافقین کے دو گروہوں کا تذ کرہ ہے اور عذاب الیم کی وعید میں دونوں شامل ہیں۔ اور مِنْهُمْ سے جھوٹے عذر پیش کرنے والے اور بیٹھ رہنے والے دونوں مراد ہوں گے اور دوسرے مفسرین نے مُعَذِّرُونَ سے مراد ایسے بادیہ نشین مسلمان لیے ہیں جنہوں نے معقول عذر پیش کر کے اجازت لی تھی اور مُعَذِّرُونَ ان کے نزدیک اصل میں مَعْتَذِرُوْنَ ہے تا کو ذال میں مدغم کر دیا گیا ہے اور معتذر کے معنی ہیں واقعی عذر رکھنے والا اس اعتبار سے آیت کے اگلے جملے میں منافقین کا تذکرہ ہے اور آیت میں دو گروہوں کا ذکر ہے پہلے جملے میں ان مسلمانوں کا جن کے پاس واقعی عذر تھے اور دوسرے منافقین جو بغیر عذر پیش کیے بیٹھے رہے اور آیت کے آخری حصے میں جو وعید ہے اسی دوسرے گروہ کے لیے ہے۔ وَاللهُ أَعْلَمُ ۔

التفاسير:

external-link copy
91 : 9

لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ وَلَا عَلَی الْمَرْضٰی وَلَا عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ؕ— مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ ؕ— وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟ۙ

ضعیفوں پر اور بیماروں پر اور ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وه اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں۔ ایسے نیک کاروں پر الزام کی کوئی راه نہیں، اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت ورحمت واﻻ ہے۔(1) info

(1) اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو واقعی معذور تھے اور ان کا عذر بھی واضح تھا مثلاً (1) ضعیف وناتواں یعنی بوڑھے قسم کے لوگ، اور نابینا یا لنگڑے وغیرہ معذورین بھی اسی ذیل میں آجاتے ہیں، بعض نے انہیں بیماروں میں شامل کیا ہے، (2) بیمار، (3) جن کے پاس جہاد کے اخراجات نہیں تھے اور بیت المال بھی ان کے اخراجات کا متحمل نہیں تھا، اللہ اور رسول کی خیر خواہی سے مراد، جہاد کی ان کے دلوں میں تڑپ، مجاہدین سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ اور رسول کے دشمنوں سے عداوت، اور حتی الامکان اللہ اور رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں، اگر جہاد میں شرکت کرنے سے معذور ہوں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
92 : 9

وَّلَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ ۪— تَوَلَّوْا وَّاَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ ۟ؕ

ہاں ان پر بھی کوئی حرج نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں تو آپ جواب دیتے ہیں کہ میں تو تمہاری سواری کے لئے کچھ بھی نہیں پاتا، تو وه رنج وغم سے اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں کہ انہیں خرچ کرنے کے لئے کچھ بھی میسر نہیں۔(1) info

(1) یہ مسلمانوں کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں بھی نہیں تھیں اور نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی انہیں سواریاں پیش کرنے سے معذرت کی جس پر انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، گویا مخلص مسلمان جو کسی بھی لحاظ سے معقول عذر رکھتے تھے اللہ تعالٰی نے جو ہر ظاہر باطن سے باخبر ہے ان کو جہاد میں شرکت سے مستثنٰی کر دیا۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے ان معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے فرمایا کہ ”تمہارے پیچھے مدینے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر چلتے ہو، تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں“ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) نے پوچھا۔ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے جب کہ وہ مدینے میں بیٹھے ہیں؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ ( صحيح البخاري كتاب الجهاد، باب من حبسه العذر عن الغزو- وصحيح مسلم، كتاب الإمارة باب ثواب من حبسه عن الغزو مرض ....) ”عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے“۔

التفاسير:

external-link copy
93 : 9

اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ وَهُمْ اَغْنِیَآءُ ۚ— رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ ۙ— وَطَبَعَ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۟

بیشک انہیں لوگوں پر راه الزام ہے جو باوجود دولتمند ہونے کے آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ یہ خانہ نشین عورتوں کا ساتھ دینے پر خوش ہیں اور ان کے دلوں پر مہر خداوندی لگ چکی ہے جس سے وه محض بے علم ہو گئے ہیں۔(1) info

(1) یہ منافقین ہیں جن کا تذکرہ آیت 86، 87 میں گزرا۔ یہاں دوبارہ ان کا ذکر مخلص مسلمانوں کے مقابلے میں ہوا ہے کہ ”تَتَبَيَّنُ الأَشْيَاءُ بِأَضْدَادِهَا“ یعنی چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ خَوَالِفُ، خَالِفَةٌ ُ (پیچھے رہنے والے) مرد عورتیں، بچے معذور اور شدید بیمار اور بوڑھے ہیں جو جنگ میں شرکت سے معذور ہیں۔ لا يَعْلَمُونَ کا مطلب ہے وہ نہیں جانتے کہ پیچھے رہنا کتنا بڑا جرم ہے، ورنہ شاید وہ رسول (صلى الله عليه وسلم) سے پیچھے نہ رہتے۔

التفاسير: