(1) مفسرین نے اس کی تفسیر میں متعدد واقعات نقل کئے ہیں، جن میں منافقین نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے جسے بعض مسلمانوں نے سن لیا اور انہوں نے آکر نبی (صلى الله عليه وسلم) کو بتلایا، لیکن آپ کے استفسار پر مکر گئے بلکہ حلف تک اٹھا لیا کہ انہوں نے ایسی بات نہیں کی۔ جس پر یہ آیت اتری۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی شان میں گستاخی کرنا کفر ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) کی شان میں گستاخی کرنے والا مسلمان نہیں رہ سکتا۔
(2) اس کی بابت بھی بعض واقعات نقل کئے گئے ہیں۔ مثلاً تبوک کی واپسی پر منافقین نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے خلاف ایک سازش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے کہ دس بارہ منافقین ایک گھاٹی میں آپ کے پیچھے لگ گئے جہاں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) باقی لشکر سے الگ تقریباً تنہا گزر رہے تھے ان کا منصوبہ یہ تھا کہ آپ پر حملہ کر کے آپ کا کام تمام کر دیں گے اس کی اطلاع وحی کے ذریعے سے آپ کو دے دی گئی جس سے آپ نے بچاؤ کر لیا۔
(3) مسلمانوں کی ہجرت کے بعد، مدینہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے وہاں تجارت اور کاروبار کو بھی فروغ ملا، اور اہل مدینہ کی معاشی حالت بہت اچھی ہوگئی تھی۔ منافقین مدینہ کو بھی اس کا خوب فائدہ حاصل ہوا اللہ تعالٰی اس آیت میں یہی فرما رہا ہے کہ کیا ان کو اس بات کی ناراضگی ہے کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے غنی بنا دیا ہے، بلکہ ان کو تو اللہ تعالٰی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انہیں تنگ دستی سے نکال کر خوش حال بنا دیا۔
ملحوظہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کا ذکر اس لئے ہے کہ اس غنا اور تونگری کا ظاہری سبب رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی ذات گرامی ہی بنی تھی، ورنہ حقیقت میں غنی بنانے والا تو اللہ تعالیٰ ہے تھا۔ اس لئے آیت میں من فضلہ، واحد کی ضمیر ہے کہ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں غنی کردیا۔