[1] درمیان والی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جس کو اس حدیث رسول (صلى الله عليه وسلم) نے متعین کردیا ہے جس میں آپ (صلى الله عليه وسلم) نے خندق والے دن عصر کی نماز کو صَلاة وُسْطَىٰ قراردیا۔ (صحيح بخاري، كتاب الجهاد، باب الدعاء على المشركين بالهزيمة وصحيح مسلم، كتاب المساجد ، باب الدليل لمن قال الصلاة الوسطى ....)
[1] یعنی دشمن سے خوف کے وقت جس طرح بھی ممکن ہے، پیادہ چلتے ہوئے سواری پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ لو۔ تاہم جب خوف کی حالت ختم ہوجائے تو پھر اسی طرح نماز پڑھو جس طرح سکھلایا گیا ہے۔
[1] یہ آیت، گو ترتیب میں موخر ہے، مگر منسوخ ہے، ناسخ آیت پہلے گزر چکی ہے، جس میں عدت وفات مہینے دن بتلائی گئی۔ علاوہ ازیں آیت مواریث نے بیویوں کا حصہ بھی مقرر کردیا ہے، اس لئے اب خاوند کو عورت کے لئے کسی بھی قسم کی وصیت کرنے کی ضرورت نہیں رہی، نہ رہائش (سکنی) کی اور نہ نان ونفقہ کی۔
[1] یہ حکم عام ہے جو ہر مطلقہ عورت کو شامل ہے۔ اس میں تفریق کے وقت جس حسن سلوک اور تطییب قلوب کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اس کے بےشمار معاشرتی فوائد ہیں۔ کاش مسلمان اس نہایت اہم نصیحت پر عمل کریں، جسے انہوں نے بالکل فراموش کر رکھا ہے۔ آج کل کے بعض (مجتہدین) نے ”مَتَاعٌ“ اور ”مَتِّعُوهُنَّ“ سے یہ استدلال کیا ہے کہ مطلقہ کو اپنی جائیداد میں سے باقاعدہ حصہ دو، یا عمر بھر نان ونفقہ دیتے رہو۔ یہ دونوں باتیں بےبنیاد ہیں، بھلا جس عورت کو مرد نے نہایت ناپسندیدہ سمجھ کر اپنی زندگی سے ہی خارج کردیا، وہ ساری عمر کس طرح اس کے اخراجات کی ادائیگی کے لئے تیار ہوگا؟
[1] یہ واقعہ سابقہ کسی امت کا ہے، جس کی تفصیل کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں کی گئی۔ تفسیری روایات میں اسے بنی اسرائیل کے زمانے کا واقعہ اور اس پیغمبر کا نام، جس کی دعا سے انہیں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زندہ فرمایا، حزقیل بتلایا گیا ہے۔ یہ جہاد میں قتل کےڈر سے، یا وبائی بیماری طاعون کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، تاکہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مار کر ایک تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کی تقدیر سے تم بچ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ دوسرا یہ کہ انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور وہ تمام انسانوں کو اسی طرح زندہ فرمائے گا جس طرح اللہ نے ان کو مار کر زندہ کردیا۔ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے اس واقعے کے بیان میں یہی حکمت ہے کہ جہاد سے جی مت چراؤ، موت وحیات تو اللہ کے قبضے میں ہے اور اس موت کا وقت بھی متعین ہے جسے جہاد سے گریز و فرار کرکے تم ٹال نہیں سکتے۔
[1] قَرْضٌ حَسَنٌ سے مراد اللہ کی راہ میں اور جہاد میں مال خرچ کرنا ہے یعنی جان کی طرح مالی قربانی میں بھی تامل مت کرو۔ رزق کی کشادگی اور کمی بھی اللہ کے اختیار میں ہے۔ اور وہ دونوں طریقوں سے تمہاری آزمائش کرتا ہے۔ کبھی رزق میں کمی کرکے اور کبھی اس میں فراوانی کرکے۔ پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تو کمی بھی نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گناہ اضافہ فرماتا ہے، کبھی ظاہری طور پر، کبھی معنوی وروحانی طور پر اس میں برکت ڈال کر اور آخرت میں تو یقیناً اس میں اضافہ حیران کن ہوگا۔