[1] مثلاً عصائے موسیٰ، جس کے ذریعے سے ہم نے جادوگروں کا توڑ کیا، سمندر سے راستہ بنایا، پتھر سے بارہ چشمے جاری کئے، بادلوں کا سایہ، من وسلویٰ کا نزول وغیرہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ہمارے پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) کی صداقت کے دلیل تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے احکام الٰہی سے اعراض کیا۔
[2] نعمت کے بدلنے کے مطلب یہی ہے کہ ایمان کے بدلے انہوں نے کفر اور اعراض کا راستہ اپنایا۔
[1] چوں کہ مسلمانوں کی اکثریت غربا پر مشتمل تھی جو دنیوی آسائشوں اور سہولتوں سے محروم تھے، اس لئے کافر یعنی قریش مکہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ اہل ثروت کا ہر دور میں شیوہ رہا ہے۔
[2] اہل ایمان کے فقر اور سادگی کا کفار جو استہزا وتمسخر اڑاتے، اس کا ذکر فرما کر کہا جا رہا ہے کہ قیامت والے دن یہی فقرا اپنے تقویٰ کی بدولت بلند وبالا ہوں گے (بےحساب روزی) کا تعلق آخرت کے علاوہ دنیا سے بھی ہوسکتا ہے کہ چند سالوں کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے ان فقرا پر بھی فتوحات کے دروازے کھول دیئے، جن سے سامان دنیا اور رزق کی فراوانی ہوگئی۔
[1] یعنی توحید پر۔یہ حضرت آدم(عليه السلام) سے حضرت نوح(عليه السلام)، یعنی دس صدیوں تک لوگ توحید پر، جس کی تعلیم انبیا دیتے رہے، قائم رہے۔ آیت میں مفسرین صحابہ نے فَاخْتَلَفُوا محذوف مانا ہے، یعنی اس کے بعد شیطان کی وسوسہ اندازی سے ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا اور شرک ومظاہرپرستی عام ہوگئی۔فَبَعَثَ اس کا عطف فَاخْتَلَفُوا ( جو محذوف ہے) پر ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو کتابوں کے ساتھ بھیج دیا، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اختلافات کا فیصلہ اور حق اور توحید کو قائم وواضح کریں۔ (ابن کثیر)
[2] اختلاف ہمیشہ راہ حق سے انحراف کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس انحراف کا منبع بغض وعناد بنتا ہے، امت مسلمہ میں بھی جب تک یہ انحراف نہیں آیا، یہ امت اپنی اصل پر قائم اور اختلافات کی شدت سے محفوظ رہی، لیکن اندھی تقلید اور بدعات نے حق سے گریز کا جو راستہ کھولا، اس سے اختلافات کا دائرہ پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا، تاآنکہ اتحاد امت ایک ناممکن چیز بن کر رہ گیا ہے۔ فَهَدَى اللهُ الْمُسْلِمِينَ.
[3] چنانچہ مثلاً اہل کتاب نے جمعہ میں اختلاف کیا، یہود نے ہفتہ کو اور نصاریٰ نے اتوار کو اپنا مقدس دن قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جمعے کا دن اختیار کرنے کی ہدایت دے دی۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ(عليه السلام) کے بارے میں اختلاف کیا۔ یہود نے ان کی تکذیب کی اور ان کی والدہ حضرت مریم پر بہتان باندھا، اس کے برعکس عیسائیوں نے ان کو اللہ کا بیٹا اور الٰہ بنا دیا۔ اللہ نے مسلمانوں کو ان کے بارے میں صحیح موقف اپنانے کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ اللہ کے پیغمبر اور اس کے فرماں بردار بندے تھے۔ حضرت ابراہیم(عليه السلام) کے بارے میں بھی انہوں نے اختلاف کیا، ایک نے یہودی اور دوسرے نصرانی کہا مسلمانوں کو اللہ نے صحیح بات بتلائی کہ وہ «حَنِيفًا مُسْلِمًا» تھے اور اس طرح کے دیگر کئی مسائل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اذن یعنی اپنے فضل سے مسلمانوں کو صراط مستقیم دکھائی۔
[1] ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمانوں کو یہودیوں، منافقوں اور مشرکین عرب سے مختلف قسم کی ایذائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو بعض مسلمانوں نے نبی (صلى الله عليه وسلم) سے شکایت کی، جس پر مسلمانوں کی تسلی کے لئے یہ آیت بھی نازل ہوئی اور خود نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا «تم سے پہلے لوگوں کو ان کے سر سے لے کر پیروں تک آرے سے چیرا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت پوست کو نوچا گیا، لیکن یہ ظلم وتشدد ان کو ان کی دین سے نہیں پھیر سکا»، پھر فرمایا: «اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس معاملے کو مکمل (یعنی اسلام کو غالب) فرمائے گا۔ یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا»۔ الحدیث (صحيح بخاري، كتاب الإكراه، باب من اختار الضرب والقتل والهوان على الكفر) مقصد نبی (صلى الله عليه وسلم) کا مسلمانوں کے اندر حوصلہ اور استقامت کا عزم پیدا کرنا تھا۔
[2] اس لئے «كُلُّ مَا هُوَ آتٍ فَهَوَ قَرِيبٌ»۔ ”ہر آنے والی چیز، قریب ہے“ اور اہل ایمان کے لئے اللہ کی مدد یقینی ہے، اس لئے وہ قریب ہی ہے۔
[1] بعض صحابہ (رضي الله عنهم) کے استفسار پر مال خرچ کرنے کے اولین مصارف بیان کئے جا رہے ہیں، یعنی یہ سب سے زیادہ تمہارے مالی تعاون کے مستحق ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انفاق کایہ حکم صدقات نافلہ سے متعلق ہے، زکٰوۃ سے متعلق نہیں۔ کیوں کہ ماں باپ پر زکٰوۃ کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں ہے۔ حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کرکے فرمایا ”مال خرچ کرنے کی ان جگہوں میں نہ طبلہ سارنگی کا ذکر ہے اور نہ چوبی تصویروں اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے آرائشی پردوں کا“ مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر مال خرچ کرنا ناپسندیدہ اور اسراف ہے۔ افسوس ہے کہ آج یہ مسرفانہ اور ناپسندیدہ اخراجات ہماری زندگی کا اس طرح لازمی حصہ بن گئے ہیں کہ اس میں کراہیت کا کوئی پہلو ہی ہماری نظروں میں نہیں رہا۔