[1] «يَسْتَفْتِحُونَ» کے ایک معنی یہ ہیں غلبہ اور نصرت کی دعا کرتے تھے، یعنی جب یہ یہود مشرکین سے شکست کھا جاتے تو اللہ سے دعا کرتے، یااللہ آخری نبی جلد مبعوث فرما، تاکہ اس سے مل کر ہم مشرکین پر غلبہ حاصل کریں یعنی ”اسْتِفْتَاحٌ“ بمعنی ”اسْتِنْصَارٍ“ ہے۔ دوسرے معنی خبر دینے کے ہیں۔ «أَيْ: يُخْبِرُهُمْ بِأَنَّهُ سَيُبْعَثُ»۔ یعنی یہودی کافروں کو خبر دیتے کہ عنقریب نبی کی بعثت ہوگی۔ (فتح القدیر) لیکن بعثت کے بعد علم رکھنے کے باوجود نبوت محمدی پر محض حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔
[1] یعنی اس بات کی معرفت کے بعد بھی، کہ حضرت محمد رسول (صلى الله عليه وسلم) ، وہی آخری پیغمبر ہیں، جن کے اوصاف تورات وانجیل میں مذکور ہیں اور جن کی وجہ سے ہی اہل کتاب ان کے ایک (نجات دہندہ) کے طور پر منتظر بھی تھے، لیکن ان پر محض اس جلن اور حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) ہماری نسل میں سے کیوں نہ ہوئے، جیسا کہ ہمارا گمان تھا، یعنی ان کا انکار دلائل پر نہیں، نسلی منافرت اور حسد وعناد پر مبنی تھا۔
[2] غضب پر غضب کا مطلب ہے بہت زیادہ غضب۔ کیوں کہ بار بار وہ غضب والے کام کرتے رہے، جیسا کہ تفصیل گزری، اور اب محض حسد کی وجہ سے قرآن اور حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کا انکار کیا۔
[1] یعنی تورات پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ یعنی اس کے بعد ہمیں قرآن پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے۔
[2] یعنی تمہارا تورات پر دعویٰ ایمان بھی صحیح نہیں ہے۔ اگر تورات پر تمہارا ایمان ہوتا تو انبیا (عليهم السلام)کو تم قتل نہ کرتے، اس سے معلوم ہوا کہ اب بھی تمہارا انکار محض حسد اور عناد پر مبنی ہے۔
[1] یہ ان کے انکار اور عناد کی ایک اور دلیل ہے کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) آیات واضحات اور دلائل قاطعہ اس بات کی لے کر آئے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ معبود صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن تم نے اس کے باوجود حضرت موسی (عليه السلام) کو بھی تنگ کیا اور الٰہ واحد کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنالیا۔
[1] یہ کفر وانکار کی انتہا ہے کہ زبان سے تو اقرار کہ سن لیا، یعنی اطاعت کریں گے اور دل میں یہ نیت کہ ہم نے کون سا عمل کرنا ہے؟
[2] ایک تو محبت خود ایسی چیز ہوتی ہے، کہ انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ دوسرے، اس کو أُشْرِبُوا (پلادی گئی) سے تعبیر کیا گیا، کیوں کہ پانی انسان کے رگ وریشہ میں خوب دوڑتا ہے جب کہ کھانے کا گزراس طرح نہیں ہوتا۔ (فتح القدیر)
[3] یعنی عصیان اور بچھڑے کی محبت وعبادت کی وجہ وہ کفر تھا جو ان کے دلوں میں گھر کر چکا تھا۔