[1] آج بھی اہل بدعت کو سمجھایا جائے کہ ان بدعات کی دین میں کوئی اصل نہیں تو وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ یہ رسمیں تو ہمارے آباواجداد سے چلی آرہی ہیں۔ حالانکہ آباواجداد بھی دینی بصیرت سے بےبہرہ اور ہدایت سے محروم رہ سکتے ہیں، اس لئے دلائل شریعت کے مقابلے میں آباپرستی یا اپنے ائمہ وعلما کی اتباع غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دلدل سے نکالے۔
[1] ان کافروں کی مثال جنہوں نے تقلید آبا میں اپنی عقل وفہم کو معطل کر رکھا ہے، ان جانوروں کی طرح ہے جن کو چرواہا بلاتا اور پکارتا ہے وہ جانور آواز تو سنتے ہیں، لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں کیوں بلایا اور پکارا جارہا ہے؟ اسی طرح یہ مقلدین بھی بہرے ہیں کہ حق کی آواز نہیں سنتے، گونگے ہیں کہ حق ان کی زبان سےنہیں نکلتا، اندھے ہیں کہ حق کے دیکھنے سے عاجز ہیں اور بےعقل ہیں کہ دعوت حق اور دعوت توحید وسنت کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہاں دعا سے قریب کی آواز اور ندا سے دور کی آواز مراد ہے۔
[1] اس میں اہل ایمان کو ان تمام پاکیزہ چیزوں کے کھانے کا حکم ہے جو اللہ نے حلال کی ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تاکید ہے۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک اور طیب ہیں، حرام کردہ اشیا پاک نہیں، چاہے وہ نفس کو کتنی ہی مرغوب ہوں (جیسے اہل یورپ کو سور کا گوشت بڑا مرغوب ہے) دوسرایہ کہ بتوں کے نام پر منسوب جانوروں اور اشیا کو مشرکین اپنے اوپر جو حرام کرلیتے تھے (جس کی تفصیل سورۂ الانعام میں ہے) مشرکین کا یہ عمل غلط ہے اور اس طرح ایک حلال چیز حرام نہیں ہوتی، تم ان کی طرح ان کو حرام مت کرو (حرام صرف وہی ہیں جس کی تفصیل اس کے بعد والی آیت میں ہے) ، تیسرا یہ کہ اگر تم صرف ایک اللہ کے عبادت گزار ہو تو ادائے شکر کا اہتمام کرو۔
[1] اس آیت میں چار حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے، لیکن اسے کلمہ حصر (انما) کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جس سے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حرام صرف یہی چار چیزیں ہیں، جب کہ ان کے علاوہ بھی کئی چیزیں حرام ہیں، اس لئے اول تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حصر ایک خاص سیاق میں آیا ہے، یعنی مشرکین کے اس فعل کے ضمن میں کہ وہ حلال جانوروں کو بھی، حرام قرار دے لیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ حرام نہیں، حرام تو صرف یہ یہ ہیں۔ اس لئے حصر اضافی ہے، یعنی اس کے علاوہ بھی دیگر محرمات ہیں جو یہاں مذکور نہیں۔ دوسرے، حدیث میں دو اصول، جانوروں کی حلت وحرمت کے لئے، بیان کردیئے گئے ہیں، وہ آیت کی صحیح تفسیر کے طور پر سامنے رہنے چاہئیں درندوں میں ذو ناب (وہ درندہ جو کچلیوں سے شکار کرے) اور پرندوں میں ذومخلب (جو پنجے سے شکار کرے) حرام ہیں، تیسرے، جن جانوروں کی حرمت حدیث سے ثابت ہے، مثلاً گدھا، کتا وغیرہ وہ بھی حرام ہیں، جس سے اس بات کی طرف اشارہ نکلتا ہے کہ حدیث بھی قرآن کریم کی طرح دین کا ماخذ اور دین میں حجت ہے اور دین دونوں کے ماننے سے مکمل ہوتا ہے، نہ کہ حدیث کو نظرانداز کرکے، صرف قرآن سے۔ مردہ سے مراد ہر وہ حلال جانور ہے، جو بغیر ذبح کئے طبعی طور پر یا کسی حادثے سے (جس کی تفصیل سورۂ المائدہ میں ہے) مرگیا ہو۔ یا شرعی طریقے کے خلاف اسے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً گلا گھونٹ دیا جائے، یا پتھر اور لکڑی وغیرہ سے مارا جائے، یا جس طرح آج کل مشینی ذبح کا طریقہ ہے جس میں جھٹکے سے مارا جاتا ہے۔ البتہ حدیث میں دو مردار جانور حلال قرار دیئے گئے ہیں۔ ایک مچھلی، دوسری ٹڈی، وہ اس حکم میتہ سے مستثنیٰ ہیں۔ خون سے مراد دم مسفوح ہے۔ یعنی ذبح کے وقت جو خون نکلتا اور بہتا ہے۔ گوشت کے ساتھ جو خون لگا رہ جاتا ہے وہ حلال ہے۔ یہاں بھی دو خون حدیث کی رو سے حلال ہیں : کلیجی اور تلی۔ خنزیر یعنی سور کا گوشت، یہ بےغیرتی میں بدترین جانور ہے، اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے وَمَا أُهِلَّ وہ جانور یا کوئی اور چیز جسے غیراللہ کے نام پر پکارا جائے۔ اس سے مراد وہ جانور ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کئے جائیں۔ جیسے مشرکین عرب لات وعزیٰ وغیرہ کے ناموں پر ذبح کرتے تھے، یا آگ کے نام پر، جیسے مجوسی کرتے تھے۔
اور اسی میں وہ جانور بھی آجاتے ہیں جو جاہل مسلمان فوت شدہ بزرگوں کی عقیدت ومحبت، ان کی خوشنودی وتقرب حاصل کرنے کے لئے یا ان سے ڈرتے اور امید رکھتے ہوئے، قبروں اور آستانوں پر ذبح کرتے ہیں، یا مجاورین کو بزرگوں کی نیاز کے نام پر دے آتے ہیں (جیسے بہت سے بزرگوں کی قبروں پر بورڈ لگے ہوئے ہیں مثلاً داتا صاحب کی نیاز کے لئے بکرے یہاں جمع کرائے جائیں) ، ان جانوروں کو، چاہے ذبح کے وقت اللہ ہی کا نام لے کر ذبح کیا جائے، یہ حرام ہی ہوں گے۔ کیوں کہ اس سے مقصود، رضائے الہیٰ نہیں، رضائے اہل قبور اور تعظیم لغیر اللہ، یا خوف یا رجاء من غیر اللہ (غیر اللہ سے مافوق الاسباب طریقے سے دڈ یا امید) ہے، جو شرک ہے۔ اسی طریقے سے جانوروں کے علاوہ جو اشیا بھی غیر اللہ کے نام پر نذر نیاز اور چڑھاوے کی ہوں گی، حرام ہوں گی، جیسے قبروں پر لے جاکر یا وہاں سےخرید کر، قبور کے ارد گرد فقرا، ومساکین پر دیگوں اور لنگروں کی، یا مٹھائی اور پیسوں وغیرہ کی تقسیم، یا وہاں صندوقچی میں نذرنیاز کے پیسے ڈالنا، یا عرس کے موقع پر وہاں دودھ پہنچانا، یہ سب کام حرام اور ناجائز ہیں، کیوں کہ یہ سب غیر اللہ کی نذرونیاز کی صورت ہیں اور نذر بھی . نماز، روزہ وغیرہ عبادات کی طرح، ایک عبادت ہے، اور عبادت کی ہر قسم صرف ایک اللہ کے لئے مخصوص ہے۔ اسی لئے حدیث میں ہے : «مَلْعُونٌ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ» (صحيح الجامع الصغير وزيادته ألباني . جص) ”جس نے غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کیا، وہ ملعون ہے۔“
تفسیر عزیزی میں بحوالہ تفسیر نیشاپوری ہے; ”أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ لَوْ أَنَّ مُسْلِمًا ذَبَحَ ذَبِيحَةً، يُرِيدُ بِذَبْحِهَا التَّقَرُّبَ إِلَى غَيْرِ اللهِ، صَارَ مُرْتَدًّا وَذَبِيحَتُهُ ذَبِيحَةُ مُرْتَدٍّ۔“ (تفسیر عزیزی ص 611 بحوالہ اشرف الحواشی) ”علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذبیحہ ایک مرتد کا ذبیحہ ہوگا۔“