[1] مراد ایام تشریق ہیں، یعنی11، 12 اور 13 ذوالحجہ۔ ان میں ذکر الٰہی، یعنی بہ آواز بلند تکبیرات مسنون ہیں، صرف فرض نمازوں کے بعد ہی نہیں (جیسا کہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر مشہور ہے) بلکہ ہر وقت یہ تکبیرات پڑھی جائیں «اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ، لا إِلَه إلا الله ، واللهُ أَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ ، وللهِ الحَمْدُ» کنکریاں مارتے وقت ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھنی مسنون ہے۔ (نیل الاوطار۔ ج5ص86)۔
[2] رمی جمار (جمرات کو کنکریاں مارنا) دن افضل ہیں، لیکن اگر کوئی دو دن (11، 12 ذوالحجہ) کو کنکریاں مار کر منیٰ سے واپس آجائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔
[1] بعض ضعیف روایات کے مطابق یہ آیت ایک منافق اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن صحیح تر بات یہ ہے کہ اس سے مراد سارے ہی منافقین اور متکبرین ہیں، جن میں یہ مذموم اوصاف پائے جائیں جو قرآن نے اس کے ضمن میں بیان فرمائے ہیں۔
[1] «أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإِثْمِ» تکبر اور غرور اسے گناہ پر ابھارتا ہے۔ عزت کے معنی غرور وانانیت کے ہیں۔
[1] یہ آیت، کہتے ہیں حضرت صہیب (رضي الله عنه) رومی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جب وہ ہجرت کرنے لگے تو کافروں نے کہا کہ یہ مال سب یہاں کا کمایا ہوا ہے، اسے ہم ساتھ نہیں لے جانے دیں گے، حضرت صہیب (رضي الله عنه) نے یہ سارا مال ان کے حوالے کردیا اور دین ساتھ لے کر حضور جکی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے سن کر فرمایا: ”صہیب نے نفع بخش تجارت کی ہے“ دو مرتبہ فرمایا (فتح القدیر) لیکن یہ آیت بھی عام ہے، جو تمام مومنین متقین اور دنیا کے مقابلے میں دین کو اور آخرت کو ترجیح دینے والوں کو شامل ہے، کیوں کہ اس قسم کی تمام آیات کے بارے میں، جو کسی خاص شخص یا واقعہ کے بارے میں نازل ہوئیں یہ اصول ہے: ”الْعِبْرَةُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لا بِخُصُوصِ السَّبَبِ“ یعنی لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا، سبب نزول کے خصوص کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ پس اخنس بن شریق (جس کا ذکر پچھلی آیت میں ہوا) برے کردار کا ایک نمونہ ہے جو ہر اس شخص پر صادق آئے گا جو اس جیسے برے کردار کا حامل ہوگا اور صہیب (رضي الله عنه) خیر اور کمال ایمان کی ایک مثال ہیں ہر اس شخص کے لئے جو ان صفات خیر وکمال سے متصف ہوگا۔
[1] اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ اس طرح نہ کرو کہ جو باتیں تمہاری مصلحتوں اور خواہشات کے مطابق ہوں، ان پر تو عمل کرلو اور دوسرے حکموں کو نظر انداز کردو۔ اسی طرح جو دین تم چھوڑ آئے ہو، اس کی باتیں اسلام میں شامل کرنے کی کوشش مت کرو، بلکہ صرف اسلام کو مکمل طور پر اپناؤ۔ اس سے دین میں بدعات کی بھی نفی کردی گئی اور آج کل کے سیکولر ذہن کی تردید بھی، جو اسلام کو مکمل طور پر اپنانے کے لئے تیار نہیں، بلکہ دین کو عبادات، یعنی مساجد تک محدود کرنا، اور سیاست اور ایوان حکومت سے دیس کو نکالا دینا چاہتا ہے۔ اسی طرح عوام کو بھی سمجھایا جارہا ہے جو رسوم ورواج اور علاقائی ثقافت وروایات کو پسند کرتے ہیں اور انہیں چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے، جیسے مرگ اور شادی بیاہ کی مسرفانہ اور ہندوانہ رسوم اور دیگر رواج۔ اور یہ کہا جا رہا ہےکہ شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، جو تمہیں مذکورہ خلاف اسلام باتوں کے لئے حسین فلسفے تراش کر پیش کرتا، برائیوں پر خوش نما غلاف چڑھاتا اور بدعات کو بھی نیکی باور کراتا ہے، تاکہ اس کے دام ہم رنگ زمین میں پھنسے رہو۔
[1] یہ یا تو قیامت کا منظر ہے جیسا کہ بعض تفسیری روایات میں ہے۔ (ابن کثیر) یعنی کیا یہ قیامت برپا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتے کے جلو میں اور بادلوں کے سائے میں ان کے سامنے آئے اور فیصلہ چکائے، تب وہ ایمان لائیں گے۔ لیکن ایسا اسلام قابل قبول ہی نہیں، اس لئے قبول اسلام میں تاخیر مت کرو اور فوراً اسلام قبول کرکے اپنی آخرت سنوار لو۔