Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri

Sayfa numarası:close

external-link copy
36 : 6

اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ ؔؕ— وَالْمَوْتٰی یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ ۟

وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں(1) ۔ اور مُردوں کو اللہ زنده کر کے اٹھائے گا پھر سب اللہ ہی کی طرف ﻻئے جائیں گے۔ info

(1) اور ان کافروں کی حیثیت تو ایسی ہے جیسے مردوں کی ہوتی ہے جس طرح وہ سننے اور سمجھنے کی قدرت سے محروم ہیں، یہ بھی چونکہ اپنی عقل وفہم سے حق کو سمجھنے کا کام نہیں لیتے، اس لئے یہ بھی مردہ ہی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
37 : 6

وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ؕ— قُلْ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰۤی اَنْ یُّنَزِّلَ اٰیَةً وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۟

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان پر کوئی معجزه کیوں نہیں نازل کیا گیا ان کے رب کی طرف سے آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ کو بےشک پوری قدرت ہے اس پر کہ وه معجزه نازل فرمادے(1) ۔ لیکن ان میں اکثر بےخبر ہیں۔(2) info

(1) یعنی ایسا معجزہ، جو ان کو ایمان لانے پر مجبور کردے، جیسے ان کی آنکھوں کے سامنے فرشتہ اترے، یا پہاڑ ان پر اٹھا کر بلند کر دیا جائے، جس طرح بنی اسرائیل پر کیا گیا۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ تو یقینًا ایسا کرسکتا ہے لیکن اس نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ پھر انسانوں کے ابتلا کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے مطالبے پر اگر کوئی معجزہ دکھلایا جاتا اور پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے تو پھر فوراً انہیں اسی دنیا میں سخت سزا دے دی جاتی۔ یوں گویا اللہ کی اس حکمت میں بھی انہی کا دنیاوی فائدہ ہے۔
(2) جو اللہ کے حکم ومشیت کی حکمت بالغہ کا ادراک نہیں کرسکتے۔

التفاسير:

external-link copy
38 : 6

وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طٰٓىِٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ؕ— مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ ۟

اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروه نہ ہوں(1) ، ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی(2) پھر سب اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جائیں گے۔(3) info

(1) یعنی انہیں بھی اللہ نے اسی طرح پیدا فرمایا جس طرح تمہیں پیدا کیا، اسی طرح انہیں روزی دیتا ہے جس طرح تمہیں دیتا ہے اور تمہاری ہی طرح وہ بھی اس کی قدرت وعلم کے تحت داخل ہیں۔
(2) کتاب (دفتر) سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی وہاں ہر چیز درج ہے یا مراد قرآن ہے جس میں اجمالاً یا تفصیلاً دین کے ہر معاملے پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا «وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ» (النحل: 89) ”ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے“۔ یہاں پر سیاق کے لحاظ سے پہلا معنی اقرب ہے۔
(3) یعنی تمام مذکورہ گروہ اکٹھے کئے جائیں گے۔ اس سے علماء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ جس طرح تمام انسانوں کو زندہ کرکے ان کا حساب کتاب لیا جائے گا، جانوروں اور دیگر تمام مخلوقات کو بھی زندہ کرکے ان کا بھی حساب کتاب ہوگا۔ جس طرح ایک حدیث میں بھی نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”کسی سینگ والی بکری نے اگر بغیر سینگ والی بکری پر کوئی زیادتی کی ہوگی تو قیامت والے دن سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا“۔ (صحيح مسلم-نمبر 1997) بعض علماء نے حشر سے مراد صرف موت لی ہے۔ یعنی سب کو موت آئے گی۔ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں حشر سے مراد کفار کا حشر ہے۔ اور درمیان میں مزید جو باتیں آئی ہیں، وہ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں۔ اور حدیث مذکور (جس میں بکری سے بدلہ لئے جانے کا ذکر ہے) بطور تمثیل ہے جس سے مقصد قیامت کے حساب وکتاب کی اہمیت وعظمت کو واضح کرنا ہے۔ یا یہ کہ حیوانات میں سے صرف ظالم اور مظلوم کو زندہ کرکے ظالم سے مظلوم کا بدلہ دلا دیا جائے گا۔ پھر دونوں معدوم کر دیئے جائیں گے۔ (فتح القدیر وغیرہ) اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
39 : 6

وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّبُكْمٌ فِی الظُّلُمٰتِ ؕ— مَنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یُضْلِلْهُ ؕ— وَمَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْهُ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۟

اور جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وه تو طرح طرح کی ﻇلمتوں میں بہرے گونگے ہو رہے ہیں، اللہ جس کو چاہے بے راه کردے اور وه جس کو چاہے سیدھی راه پر لگا دے۔(1) info

(1) آیات الٰہی کی تکذیب کرنے والے چونکہ اپنے کانوﮞ سے حق بات سنتے نہیں اور اپنی زبانوں سے حق بات بولتے نہیں، اس لئے وہ ایسے ہی ہیں جیسے گونگے اور بہرے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ کفر وضلالت کی تاریکیوں میں بھی گھرے ہوئے ہیں۔ اس لئے انہیں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جس سے ان کی اصلاح ہوسکے۔ پس ان کے حواس گویا مسلوب ہوگئے جن سے کسی حال میں وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ پھر فرمایا: تمام اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ جسے چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر لگا دے۔ لیکن اس کا یہ فیصلہ یوں ہی الل ٹپ نہیں ہوجاتا بلکہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے، گمراہ اسی کو کرتا ہے جو خود گمراہی میں پھنسا ہوتا ہے اور اس سے نکلنے کی وہ سعی کرتا ہے نہ نکلنے کو وہ پسند ہی کرتا ہے۔ (مزید دیکھیے سورۂ بقرۃ آیت 26 کا حاشیہ)

التفاسير:

external-link copy
40 : 6

قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ ۚ— اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۟

آپ کہیے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آ پڑے یا تم پر قیامت ہی آ پہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو۔ info
التفاسير:

external-link copy
41 : 6

بَلْ اِیَّاهُ تَدْعُوْنَ فَیَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْهِ اِنْ شَآءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ ۟۠

بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لئے تم پکارو گے اگر وه چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے۔(1) info

(1) ”أَرَأيْتَكُمْ“ میں کاف اور میم خطاب کے لئے ہے اس کے معنی ”أَخْبِرُونِي“ (مجھے بتلاؤ یا خبر دو) کے ہیں۔ اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ (دیکھیے سورۂ بقرہ آیت 165 کا حاشیہ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید انسانی فطرت کی آواز ہے۔ انسانی ماحول، یا آبا واجداد کی تقلید نا سدید میں مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا رہتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا ومشکل کشا سمجھتا رہتا ہے، نذر ونیاز بھی انہی کے نام کی نکالتا ہے، لیکن جب کسی ابتلا سے دوچار ہوتا ہے تو پھر یہ سب بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے اور بےاختیار انسان پھر اسی ذات کو پکارتا ہے جس کو پکارنا چاہیے۔ کاش! لوگ اسی فطرت پر قائم رہیں کہ نجات اخروی تو مکمل طور پر اسی صدائے فطرت یعنی توحید کے اختیار کرنے میں ہی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
42 : 6

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ ۟

اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا تاکہ وه اﻇہار عجز کرسکیں۔ info
التفاسير:

external-link copy
43 : 6

فَلَوْلَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۟

سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہیں اختیار کی؟ لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا۔(1) info

(1) قومیں جب اخلاق وکردار کی پستی میں مبتلا ہو کر ا پنے دلوں کو زنگ آلود کرلیتی ہیں تو اس وقت اللہ کے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ طلب مغفرت کے لئے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے، ان کے دل اس کی بارگاہ میں نہیں جھکتے اور ان کے رخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے۔ بلکہ اپنی بداعمالیوں پر تاویلات وتوجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کرلیتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی ہی قوموں کا وہ کردار بیان کیا گیا ہے جسے شیطان نے ان کے لئے خوبصورت بنا دیا ہوتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
44 : 6

فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ ؕ— حَتّٰۤی اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ ۟

پھر جب وه لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشاده کردئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وه خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وه بالکل مایوس ہوگئے۔ info
التفاسير: