Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri

Sayfa numarası:close

external-link copy
152 : 6

وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ۚ— وَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ ۚ— لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۚ— وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰی ۚ— وَبِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا ؕ— ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ۟ۙ

اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وه اپنے سن رشد کو پہنچ جائے(1) اور ناپ تول پوری پوری کرو، انصاف کے ساتھ(2)، ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتے(3)۔ اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو، گو وه شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو، ان کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔ info

(1) جس یتیم کی کفالت تمہاری ذمہ داری قرار پائے، تو اس کی ہر طرح خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے۔ اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کے اس مال سے یعنی وراثت میں سے اس کو حصہ ملا ہے، چاہے وہ نقدی کی صورت میں ہو یا زمین اور جائیداد کی صورت میں، تاہم ابھی وہ اس کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی اس وقت تک پورے خلوﺹ سے حفاظت کی جائے جب تک وہ بلوغت اور شعور کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ کفالت کے نام پر، اس کی عمر شعور سے پہلے ہی اس کے مال یا جائیداد کو ٹھکانے لگادیا جائے۔
(2) ناپ تول میں کمی کرنا، لیتے وقت تو پورا ناپ یا تول کرلینا، مگر دیتے وقت ایسا نہ کرنا بلکہ ڈنڈی مار کر دوسرے کو کم دینا، یہ نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کے من جملہ اسباب میں سے تھی۔
(3) یہاں اس بات کے بیان سے یہ مقصد ہے کہ جن باتوں کی تاکید کررہے ہیں، یہ ایسے نہیں ہیں کہ جن پر عمل کرنا مشکل ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کا حکم ہی نہ دیتے۔ اس لئے کہ طاقت سے بڑھ کر ہم کسی کو مکلف ہی نہیں ٹھہراتے۔ اس لئے اگر نجات اخروی اور دنیا میں بھی عزت و سرفرازی چاہتے ہو تو ان احکام الٰہی پر عمل کرو اور ان سے گریز مت کرو۔

التفاسير:

external-link copy
153 : 6

وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ— وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ ؕ— ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۟

اور یہ کہ یہ دین(1) میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راه پر چلو(2) اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وه راہیں تم کو اللہ کی راه سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔ info

(1) هَذَا (یہ) سے مراد قرآن مجید یا دین اسلام یا وہ احکام ہیں جو بطور خاص اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں اور وہ ہیں توحید، معاد اور رسالت۔ اور یہی اسلام کے اصول ثلاثہ ہیں جن کے گرد پورا دین گھومتا ہے۔ اس لئے جو بھی مراد لیا جائے مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔
(2) صراط مستقیم کو واحد کے صیغے سے بیان فرمایا کیونکہ اللہ کی، یا قرآن کی، یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی راہ ایک ہی ہے۔ ایک سے زیادہ نہیں۔ اس لئے پیروی صرف اسی ایک راہ کی کرنی ہے کسی اور کی نہیں۔ یہی ملت مسلمہ کی وحدت واجتماع کی بنیاد ہے جس سے ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ حالانکہ اسے تاکید کی گئی ہے کہ ”دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی“۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ“ (الشورى) ”دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو“ گویا اختلاف اور تفرقہ کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اسی بات کو حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے اس طرح واضح فرمایا کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ ”یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے“۔ اور چند خطوط اس کی دائیں اور بائیں جانب کھینچے اور فرمایا ”یہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ ان کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے“۔ پھر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہی آیت تلاوت فرمائی جو زیر وضاحت ہے۔ (مسنداحمد، جلد 1، ص 465،435۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے دیکھئے مسند احمد بہ تعلیق احمد شاکر نمبر 4142) بلکہ ابن ماجہ کی روایت میں صراحت ہے کہ دو دو خط داہنے اور بائیں کھینچے۔ یعنی کل چار خطوط کھینچے اور انہیں شیطان کا راستہ بتلایا۔

التفاسير:

external-link copy
154 : 6

ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَی الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَتَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّهُدًی وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ ۟۠

پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر نعمت پوری ہو اور سب احکام کی تفصیل ہوجائے اور رہنمائی ہو اور رحمت ہو(1) تاکہ وه لوگ اپنے رب کے ملنے پر یقین ﻻئیں۔ info

(1) قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے جو متعدد جگہ دہرایا گیا ہے کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے تو وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا ذکر کردیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حافظ ابن کثیر نے نقل کی ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں تورات کا اور اس کے اس وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی جس میں ان کی دینی ضروریات کی تمام باتیں تفصیل سے بیان کی گئی تھیں اور وہ ہدایت ورحمت کا باعث تھی۔

التفاسير:

external-link copy
155 : 6

وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۟ۙ

اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیر وبرکت والی(1) ، سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔ info

(1) اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں دین و دنیا کی برکتیں اور بھلائیاں ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
156 : 6

اَنْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰی طَآىِٕفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا ۪— وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِیْنَ ۟ۙ

کہیں تم لوگ یوں(1) نہ کہو کہ کتاب تو صرف ہم سے پہلے جو دو فرقے تھے ان پر نازل ہوئی تھی، اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے محض بے خبر تھے۔(2) info

(1) یعنی یہ قرآن اس لئے اتارا تاکہ تم یہ نہ کہو۔ دو فرقوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں۔
(2) اس لئے کہ وہ ہماری زبان میں نہ تھی۔ چنانچہ اس عذر کو قرآن عربی میں اتار کر ختم کردیا۔

التفاسير:

external-link copy
157 : 6

اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّاۤ اَهْدٰی مِنْهُمْ ۚ— فَقَدْ جَآءَكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًی وَّرَحْمَةٌ ۚ— فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ؕ— سَنَجْزِی الَّذِیْنَ یَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰیٰتِنَا سُوْٓءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یَصْدِفُوْنَ ۟

یا یوں نہ کہو کہ اگر ہم پر کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان سے بھی زیاده راه راست پر ہوتے۔ سو اب تمہارے پاس تمہارے رب کے پاس سے ایک کتاب واضح اور رہنمائی کا ذریعہ اور رحمت آچکی ہے(1) ۔ اب اس شخص سے زیاده ﻇالم کون ہوگا جو ہماری ان آیتوں کو جھوٹا بتائے اور اس سے روکے(2)۔ ہم جلد ہی ان لوگوں کو جو کہ ہماری آیتوں سے روکتے ہیں ان کے اس روکنے کے سبب سخت سزا دیں گے۔ info

(1) گویا یہ عذر بھی تم نہیں کرسکتے۔
(2) یعنی کتاب ہدایت ورحمت کے نزول کے بعد اب جو شخص ہدایت (اسلام) کا راستہ اختیار کرکے رحمت الٰہی کا مستحق نہیں بنتا، بلکہ تکذیب واعراض کا راستہ اپناتا ہے، تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟صَدَفَ کے معنی اعراض کرنے کے بھی کئے گئے ہیں اور دوسروں کو روکنے کے بھی۔

التفاسير: