Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri

Sayfa numarası:close

external-link copy
28 : 6

بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ؕ— وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ۟

بلکہ جس چیز کو اس کے قبل چھپایا کرتے تھے وه ان کے سامنے آگئی ہے(1) اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور یقیناً یہ بالکل جھوٹے ہیں۔(2) info

(1) بَلْ جو إِضْرَاب ( یعنی پہلی بات سے گریز کرنے) کے لئے آتا ہے۔ اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ ان کے لئے وہ کفر اور عناد وتکذیب ظاہر ہوجائے گی، جو اس سے قبل وہ دنیا یا آخرت میں چھپاتے تھے۔ یعنی جس کا انکارکرتے تھے، جیسے وہاں بھی ابتداءً کہیں گے مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (ہم تو مشرک ہی نہ تھے) یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) اور قرآن کریم کی صداقت کا علم جو ان کے دلوں میں تھا، لیکن اپنے پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ وہاں ظاہر ہوجائے گا۔ یا منافقین کا وہ نفاق وہاں ظاہر ہوجائے گا جسے وہ دنیا میں اہل ایمان سے چھپاتے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر)
(2) یعنی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش ایمان لانے کے لئے نہیں، صرف عذاب سے بچنے کے لئے ہے، جو ان پر قیامت کے دن ظاہر ہوجائے گا اور جس کا وہ معائنہ کرلیں گے ورنہ اگر یہ دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
29 : 6

وَقَالُوْۤا اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ ۟

اور یہ کہتے ہیں کہ صرف یہی دنیاوی زندگی ہماری زندگی ہے اور ہم زنده نہ کئے جائیں گے۔(1) info

(1) یہ بَعْث بَعْد الْمَوْتِ (مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے) کا انکار ہے جو ہر کافر کرتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ہی دراصل ان کے کفر وعصیان کی سب سے بڑی وجہ ہے ورنہ اگر انسان کے دل میں صحیح معنوں میں اس عقیدۂ آخرت کی صداقت راسخ ہوجائے تو کفر وعصیان کے راستے سے فوراً تائب ہو جائے۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 6

وَلَوْ تَرٰۤی اِذْ وُقِفُوْا عَلٰی رَبِّهِمْ ؕ— قَالَ اَلَیْسَ هٰذَا بِالْحَقِّ ؕ— قَالُوْا بَلٰی وَرَبِّنَا ؕ— قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ ۟۠

اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے۔ اللہ فرمائے گا کہ کیا یہ امر واقعی نہیں ہے؟ وه کہیں گے بےشک قسم اپنے رب کی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اب اپنے کفر کے عوض عذاب چکھو۔(1) info

(1) یعنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلینے کے بعد تو وہ اعتراف کرلیں گے کہ آخرت کی زندگی واقعی برحق ہے۔ لیکن وہاں اس اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اب تو اپنے کفر کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔

التفاسير:

external-link copy
31 : 6

قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ ؕ— حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْهَا ۙ— وَهُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰی ظُهُوْرِهِمْ ؕ— اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ ۟

بےشک خساره میں پڑے وه لوگ جنہوں نے اللہ سے ملنے کی تکذیب کی، یہاں تک کہ جب وه معین وقت ان پر دفعتاً آ پہنچے گا، کہیں گے کہ ہائے افسوس ہماری کوتاہی پر جو اس کے بارے میں ہوئی، اور حالت ان کی یہ ہوگی کہ وه اپنے بار اپنی پیٹھوں پر ﻻدے ہوں گے، خوب سن لو کہ بری ہوگی وه چیز جس کو وه ﻻدیں گے۔(1) info

(1) اللہ کی ملاقات کی تکذیب کرنے والے جس خسارے اور نامرادی سے دوچار ہوں گے اپنی کوتاہیوں پر جس طرح نادم ہوں گے اور برے اعمال کا جو بوجھ اپنے اوپر لادے ہوں گے آیت میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے ”فَرَّطْنَا فِيهَا“ میں ضمیر ”الساعۃ“ کی طرف راجع ہے یعنی قیامت کی تیاری اور تصدیق کے معاملے میں جو کوتاہی ہم سے ہوئی۔ یا ”الصَّفْقَةُ“ (سودا) کی طرف راجع ہے، جو اگرچہ عبارت میں موجود نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کناں ہے۔ اس لئے کہ نقصان سودے میں ہی ہوتا ہے اور مراد اس سودے سے وہ ہے جو ایمان کے بدلے کفر خرید کر انہوں نے کیا۔ یعنی یہ سودا کرکے ہم نے سخت کوتاہی کی ،یا حیاۃ کی طرف راجع ہے یعنی ہم نے اپنی زندگی میں برائیوں اور کفر وشرک کا ارتکاب کرکے جو کوتاہیاں کیں۔ (فتح القدیر )

التفاسير:

external-link copy
32 : 6

وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ ؕ— وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ ؕ— اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۟

اور دنیاوی زندگانی تو کچھ بھی نہیں بجز لہو ولعب کے۔ اور دار آخرت متقیوں کے لئے بہتر ہے۔ کیا تم سوچتے سمجھتے نہیں ہو۔ info
التفاسير:

external-link copy
33 : 6

قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ ۟

ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو ان کے اقوال مغموم کرتے ہیں، سو یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ﻇالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔(1) info

(1) نبی (صلى الله عليه وسلم) کو کفار کی طرف اپنی تکذیب کی وجہ سے جو غم وحزن پہنچتا، اس کے ازالے اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا جارہا ہے کہ یہ تکذیب آپ کی نہیں۔ (آپ کو تو وہ صادق وامین مانتے ہیں) دراصل یہ آیات الٰہی کی تکذیب ہے اوریہ ایک ظلم ہے۔ جس کا وہ ارتکاب کر رہے ہیں۔ ترمذی وغیرہ کی ایک روایات میں ہے کہ ابوجہل نے ایک بار رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے کہا اے محمد! ہم تم کو نہیں بلکہ جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس کو جھٹلاتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ترمذی کی یہ راویت اگرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن دوسری صحیح روایات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ کفار مکہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی امانت ودیانت اور صداقت کے قائل تھے، لیکن اس کے باوجود وہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے سے گریزاں رہے۔ آج بھی جو لوگ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے حسن اخلاق، رفعت کردار اور امانت وصداقت کو تو خوب جھوم جھوم کر بیان کرتے اور اس موضوع پر فصاحت وبلاغت کے دریا بہاتے ہیں لیکن اتباع رسول (صلى الله عليه وسلم) میں وہ انقباض محسوس کرتے آپ کی بات کے مقابلے میں فقہ وقیاس اور اقوال ائمہ کو ترجیح دیتے ہیں، انہیں سوچنا چاہیئے کہ یہ کس کا کردار ہے جسے انہوں نے اپنایا ہوا ہے؟

التفاسير:

external-link copy
34 : 6

وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰۤی اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا ۚ— وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۚ— وَلَقَدْ جَآءَكَ مِنْ نَّبَاۡ الْمُرْسَلِیْنَ ۟

اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جا چکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچی(1) اور اللہ کی باتوں کا کوئی بدلنے واﻻ نہیں(2) اور آپ کے پاس بعض پیغمبروں کی بعض خبریں پہنچ چکی ہیں۔(3) info

(1) نبی (صلى الله عليه وسلم) کی مزید تسلی کے لئے کہا جا رہاہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ کافر اللہ کے پیغمبر کا انکار کر رہے ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں جن کی تکذیب کی جاتی رہی ہے۔ پس آپ بھی ان کی اقتدا کرتے ہوئے اسی طرح صبر اور حوصلے سے کام لیں جس طرح انہوں نے تکذیب اور ایذا پر صبر سے کام لیا، حتیٰ کہ آپ کے پاس بھی اسی طرح ہمار ی مدد آجائے، جس طرح پہلے رسولوں کی ہم نے مدد کی اور ہم اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتے۔ ہم نے وعدہ کیا ہوا ہے «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا» (المؤمن: 51) ”یقیناً ہم اپنے پیغمبروں اور اہل ایمان کی مدد کریں گے“۔ «كَتَبَ اللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي» (المجادلة: 21) ”اللہ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے“، وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ . (مثلا الصافات: 171، 172)
(2) بلکہ اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا کہ آپ کافروں پر غالب ومنصور رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
(3) جن سے واضح ہے کہ ابتدا میں گو ان کی قوموں نے انہیں جھٹلایا، انہیں ایذائیں پہنچائیں اور ان کے لئے عرصۂ حیات تنگ کردیا، لیکن بالآخر اللہ کی نصرت سے کامیابی وکامرانی اور نجات ابدی انہی کا مقدر بنی۔

التفاسير:

external-link copy
35 : 6

وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَهُمْ بِاٰیَةٍ ؕ— وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَی الْهُدٰی فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ ۟

اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو پھر کوئی معجزه لے آؤ تو کرو اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب کو راه راست پر جمع کر دیتا(1) سو آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیے۔(2) info

(1) نبی (صلى الله عليه وسلم) کو معاندین وکافرین کی تکذیب سے جو گرانی اور مشقت ہوتی تھی، اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے ہونا ہی تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر آپ ان کو قبول اسلام پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ اگر آپ کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگاکر بھی کوئی نشانی ان کو لا کر دکھا دیں، تو اول آپ کے لئے ایسا کرنا محال ہے اور اگر بالفرض آپ ایسا کر دکھائیں بھی تو یہ ایمان لانے کے نہیں۔ کیوں کہ ان کا ایمان نہ لانا، اللہ کی حکمت ومشیت کے تحت ہے جس کا مکمل احاطہ انسانی عقل وفہم نہیں کرسکتے۔ البتہ جس کی ایک ظاہری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اختیار وارادے کی آزادی دے کر آزما رہا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لئے تمام انسانوں کو ہدایت کے ایک راستے پر لگا دینا مشکل کام نہ تھا، اس کے لئے لفظ ”كُنْ“ سے پلک جھپکتے میں یہ کام ہوسکتا ہے۔
(2) یعنی آپ ان کے کفر پر زیادہ حسرت وافسوس نہ کریں کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت وتقدیر سے ہے، اس لئے اسے اللہ ہی کے سپرد کردیں، وہی اس کی حکمت ومصلحت کو بہتر سمجھتا ہے۔

التفاسير: