(1) أَبْصَارٌ بَصَرَةٌ (نگاہ) کی جمع ہے یعنی انسان کی آنکھیں اللہ کی حقیقت کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اور اگر اس سے مراد رؤیت بصری ہو تو اس کا تعلق دنیا سے ہوگا یعنی دنیا کی آنکھ سے کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم یہ صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی اس کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ اس لئے معتزلہ کا اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا، دنیا میں نہ آخرت میں، صحیح نہیں، کیونکہ اس نفی کا تعلق صرف دنیا سے ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) بھی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتی تھیں، ”جس شخص نے بھی دعویٰ کیا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے (شب معراﺝ میں) اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے، اس نے قطعاً جھوٹ بولا ہے“۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الأنعام) کیونکہ اس آیت کی رو سے پیغمبر سمیت کوئی بھی اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ البتہ آخرت کی زندگی میں یہ دیدار ممکن ہوگا۔ جیسے دوسرے مقام پر قرآن نے اس کا اثبات فرمایا۔ «وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ، إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ» (القيامة) ”کئی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔“
(1) بَصَائِرُ بَصِيرَةٌ کی جمع ہے۔ جو اصل میں دل کی روشنی کا نام ہے۔ یہاں مراد وہ دلائل وبراہین ہیں جو قرآن نے جگہ جگہ اور بار بار بیان کئے ہیں اور جنہیں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی ان احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ جو ان دلائل کو دیکھ کر ہدایت کا راستہ اپنالے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے، نہیں اپنائے گا، تو اسی کا نقصان ہے۔ جیسے فرمایا «مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا» ( بنی اسرائیل: 15) اس کا مطلب بھی وہی ہے جو زیروضاحت آیت کا ہے۔
(2) بلکہ صرف مبلغ، داعی اور بشیر ونذیر ہوں۔ راہ دکھلانا میرا کام ہے، راہ پر چلا دینا یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔
(1) یعنی ہم توحید اور اس کے دلائل کو اس طرح کھول کھول کر اور مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین یہ کہنے لگتے ہیں کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) کہیں سے پڑھ کر اور سیکھ کر آیا ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا، وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا» (الفرقان: 4۔ 5) ”کافروں نے کہا، یہ قرآن تو اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، جس پر دوسروں نے بھی اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ ایسا دعویٰ کرکے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔ نیز انہوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، جس کو اس نے لکھ رکھا ہے“۔ حالانکہ بات یہ نہیں ہے، جس طرح یہ سمجھتے یا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ مقصد اس تفصیل سے سمجھ دار لوگوں کے لئے تبیین وتشریح ہے تاکہ ان پر حجت پوری ہوجائے۔
(1) اس نکتے کی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے کہ اللہ کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی رضا اور، اس کی رضا تو اسی میں ہے کہ اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے۔ تاہم اس نے اس پر انسانوں کو مجبور نہیں کیا کیونکہ جبر کی صورت میں انسان کی آزمائش نہ ہوتی، ورنہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو ایسے اختیارات ہیں کہ وہ چاہے تو کوئی انسان شرک کرنے پر قادر ہی نہ ہو سکے۔ (مزید دیکھیئے سورہ بقرۃ آیت 253 اور سورۃ الانعام آیت 35 کا حاشیہ)
(2) یہ مضمون بھی قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مقصد نبی (صلى الله عليه وسلم) کی داعیانہ اور مبلغانہ حیثیت کی وضاحت ہے جو منصب رسالت کا تقاضا ہے اور آپ صرف اسی حد تک مکلف تھے۔ اس سے زیادہ آپ کے پاس اگر اختیارات ہوتے تو آپ اپنے محسن چچا ابوطالب کو ضرورمسلمان کرلیتے، جن کے قبول اسلام کی آپ شدید خواہش رکھتے تھے۔
(1) یہ سد ذریعہ کے اس اصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک مباح کام، اس سے بھی زیادہ بڑی خرابی کا سبب بنتا ہو تو وہاں اس مباح کام کا ترک راجح اور بہتر ہے۔ اسی طرح نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی فرمایا ہے کہ ”تم کسی کے ماں باپ کو گالی مت دو کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کے لئے گالی کا سبب بن جاوء گے“۔ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الكبائر وأكبرها) امام شوکانی لکھتے ہیں یہ آیت سد ذرائع کےلئے اصل اصیل ہے۔ (فتح القدیر)
(1) جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ، أَيْ: حَلَفُوا أَيْمَانًا مُؤَكَّدَةً۔ بڑی تاکید سے قسمیں کھائیں۔
(2) یعنی کوئی بڑا معجزہ جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، جیسے عصائے موسیٰ (عليه السلام) ، احیائے موتی اور ناقۂ ثمود وغیرہ جیسا۔
(3) ان کا یہ مطالبۂ خرق عادت تعنت وعناد کے طور پر ہے، طلب ہدایت کی نیت سے نہیں ہے۔ تاہم ان نشانیوں کا ظہور تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو ان کا مطالبہ پورا کردے۔ بعض مرسل روایات میں ہے کہ کفار مکہ نے مطالبہ کیا تھا کہ صفا پہاڑ سونے کا بنا دیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے، جس پر جبریل (عليه السلام) نے آکر کہا کہ اگر اس کے بعد بھی یہ ایمان نہ لائے تو پھرانہیں ہلاک کردیا جائے گا، جسے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے پسند نہیں فرمایا۔ (ابن کثیر )۔
(1) اس کا مطلب ہے کہ جب پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تو اس کا وبال ان پر اس طرح پڑا کہ آئندہ بھی ان کے ایمان لانے کا امکان ختم ہوگیا۔ دلوں اور نگاہوں کو پھیر دینے کا یہی مفہوم ہے۔ (ابن کثیر)