ترجمة معاني القرآن الكريم - الترجمة الأردية - محمد جوناكرهي

رقم الصفحة:close

external-link copy
65 : 22

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ ؕ— وَیُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ۟

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لئے مسخر کر دی ہیں(1) اور اس کے فرمان سے پانی میں چلتی ہوئی کشتیاں بھی۔ وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر اس کی اجازت کے بغیر نہ گر پڑے(2)، بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر شفقت ونرمی کرنے واﻻ اور مہربان ہے.(3) info

(1) مثلًا جانور، نہریں، درخت اور دیگر بیشمار چیزیں، جن کے منافع سے انسان بہرہ ور اور لذت یاب ہوتا ہے۔
(2) یعنی اگر وہ چاہے تو آسمان زمین پر گر پڑے، جس سے زمین پر ہرچیز تباہ ہو جائے۔ ہاں قیامت والے دن اس کی مشیت سے آسمان بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔
(3) اس لئے اس نے مذکورہ چیزوں کو انسان کے تابع کر دیا ہے اور آسمان کو بھی ان پر گرنے نہیں دیتا۔ تابع (مسخر) کرنے کا مطلب ہے کہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا اس کے لئے ممکن یا آسان کر دیا گیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
66 : 22

وَهُوَ الَّذِیْۤ اَحْیَاكُمْ ؗ— ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ؕ— اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ ۟

اسی نے تمہیں زندگی بخشی، پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا پھر وہی تمہیں زنده کرے گا، بے شک انسان البتہ ناشکرا ہے.(1) info

(1) یہ بحیثیت جنس کے ہے۔ بعض افراد کا اس ناشکری سے نکل جانا اس کے منافی نہیں، کیونکہ انسانوں کی اکثریت میں یہ کفر و جحود پایا جاتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
67 : 22

لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰی رَبِّكَ ؕ— اِنَّكَ لَعَلٰی هُدًی مُّسْتَقِیْمٍ ۟

ہر امت کے لئے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کر دیا ہے، جسے وه بجا ﻻنے والے(1) ہیں پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہ کرنا چاہئے(2) آپ اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلائیے۔ یقیناً آپ ٹھیک ہدایت پر ہی ہیں.(3) info

(1) یعنی ہر زمانے میں ہم نے لوگوں کے لئے ایک شریعت مقرر کی، جو بعض چیزوں میں سے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی، جس طرح تورات، امت موسیٰ (عليه السلام) کے لئے، انجیل امت عیسیٰ (عليه السلام) کے لئے شریعت تھی اور اب قرآن امت محمدیہ کے لئے شریعت اور ضابطہ حیات ہے۔
(2) یعنی اللہ نے آپ کو جو دین اور شریعت عطا کی ہے، یہ بھی مذکورہ اصول کے مطابق ہی ہے، ان سابقہ شریعت والوں کو چاہیے کہ اب آپ (صلى الله عليه وسلم) کی شریعت پر ایمان لے آئیں، نہ کہ اس معاملے میں آپ (صلى الله عليه وسلم) سے جھگڑیں۔
(3) یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) ان کے جھگڑے کی پرواہ نہ کریں، بلکہ ان کو اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہیں، کیونکہ اب صراط مستقیم پر صرف آپ ہی گامزن ہیں، یعنی پچھلی شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
68 : 22

وَاِنْ جٰدَلُوْكَ فَقُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۟

پھر بھی اگر یہ لوگ آپ سے الجھنے لگیں تو آپ کہہ دیں کہ تمہارے اعمال سے اللہ بخوبی واقف ہے. info
التفاسير:

external-link copy
69 : 22

اَللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ ۟

بیشک تمہارے سب کے اختلاف کا فیصلہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ آپ کرے گا.(1) info

(1) یعنی بیان اور اظہار حجت کے بعد بھی اگر یہ جھگڑے سے باز نہ آئیں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں کہ اللہ تعالٰی ہی تمہارے اختلافات کا فیصلہ قیامت والے دن فرمائے گا، پس اس دن واضح ہو جائے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ کیونکہ وہ اس کے مطابق سب کو جزا دے گا۔

التفاسير:

external-link copy
70 : 22

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ؕ— اِنَّ ذٰلِكَ فِیْ كِتٰبٍ ؕ— اِنَّ ذٰلِكَ عَلَی اللّٰهِ یَسِیْرٌ ۟

کیا آپ نے نہیں جانا کہ آسمان وزمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے۔ یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے.(1) info

(1) اس میں اللہ تعالٰی نے اپنے کمال علم اور مخلوقات کے احاطے کا ذکر فرمایا ہے۔ یعنی اس کی مخلوقات کو جو جو کچھ کرنا تھا، اس کو علم پہلے سے ہی تھا، وہ ان کو جانتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے علم سے یہ باتیں پہلے ہی لکھ دیں۔ اور لوگوں کو یہ بات چاہے، کتنی ہی مشکل معلوم ہو، اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔ یہ وہی تقدیر کا مسئلہ ہے، اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے، جسے حدیث میں اس طرح بیان فرمایا گیا ”اللہ تعالٰی آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے، جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا، مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں“۔ (صحيح مسلم، كتاب القدر، باب حجاج آدم وموسى) اور سنن کی روایت ہے۔ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا، اور اس کو کہا ”لکھ“ اس نے کہا، کیا لکھوں؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا، جو کچھ ہونے والا ہے، سب لکھ دے۔ چنانچہ اس نے اللہ کے حکم سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا، سب لکھ دیا“۔ (أبو داود كتاب السنة، باب في القدر، ترمذي أبواب القدر وتفسير سورة ن، مسند أحمد 5 /317)

التفاسير:

external-link copy
71 : 22

وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّمَا لَیْسَ لَهُمْ بِهٖ عِلْمٌ ؕ— وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ ۟

اور یہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کر رہے ہیں جس کی کوئی الہی دلیل نازل نہیں ہوئی نہ وه خود ہی اس کا کوئی علم رکھتے ہیں(1) ۔ ﻇالموں کا کوئی مددگار نہیں. info

(1) یعنی ان کے پاس نہ کوئی نقلی دلیل ہے، جسے آسمانی کتاب سے یہ دکھا سکیں، نہ عقلی دلیل ہے جسے غیر اللہ کی عبادت کے اثبات میں پیش کر سکیں۔

التفاسير:

external-link copy
72 : 22

وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَ ؕ— یَكَادُوْنَ یَسْطُوْنَ بِالَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا ؕ— قُلْ اَفَاُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكُمْ ؕ— اَلنَّارُ ؕ— وَعَدَهَا اللّٰهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ؕ— وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ۟۠

جب ان کے سامنے ہمارے کلام کی کھلی ہوئی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو آپ کافروں کے چہروں پر ناخوشی کے صاف آﺛار پہچان لیتے ہیں۔ وه تو قریب ہوتے ہیں کہ ہماری آیتیں سنانے والوں پر حملہ کر بیٹھیں(1) ، کہہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں اس سے بھی زیاده بدتر خبر دوں۔ وه آگ ہے، جس کا وعده اللہ نے کافروں سے کر رکھا ہے(2)، اور وه بہت ہی بری جگہ ہے. info

(1) اپنے ہاتھوں سے دست درازی کرکے یا بد زبانی کے ذریعے سے۔ یعنی مشرکین اور اہل ضلالت کے لئے اللہ کی توحید اور رسالت و قیامت کا بیان ناقابل برداشت ہوتا ہے، جس کا اظہار، ان کے چہرے سے اور بعض دفعہ ہاتھوں اور زبانوں سے ہوتا ہے۔ یہی حال آج کے اہل بدعت اور گمراہ فرقوں کا ہے، جب ان کی گمراہی، قرآن و حدیث کے دلائل سے واضح کی جاتی ہے تو ان کا رویہ بھی آیات قرآنی اور دلائل کے مقابلے میں ایسا ہی ہوتا ہے، جس کی وضاحت اس آیت میں کی گئی ہے (فتح القدیر)
(2) یعنی ابھی تو آیات الٰہی سن کر صرف تمہارے چہرے ہی حیران ہوتے ہیں۔ ایک وقت آئے گا، اگر تم نے اپنے اس روئیے سے توبہ نہیں کی، کہ اس سے کہیں زیادہ بدتر حالات سے تمہیں دو چار ہونا پڑے گا، اور وہ ہے جہنم کی آگ میں جلنا، جس کا وعدہ اللہ نے اہل کفر و شرک سے کر رکھا ہے۔

التفاسير: