(1) اکثر سلف کا قول ہے کہ اس آیت میں سب سے پہلے جہاد کا حکم دیا گیا، جس کے دو مقصد یہاں بیان کئے گئے ہیں۔ مظلومیت کا خاتمہ اور اعلائے کلمۃ اللہ۔ اس لئے کہ مظلومین کی مدد اور ان کی داد رسی نہ کی جائے تو پھر دنیا میں زور آور کمزوروں کو اور بےوسیلہ لوگوں کو جینے ہی نہ دیں جس سے زمین فساد سے بھر جائے۔ اور اگر باطل تو باطل کے غلبے سے دنیا کا امن و سکون اور اللہ کا نام لینے والوں کے لئے کوئی عبادت خانہ باقی نہ رہے (مزید تشریح کے لئے دیکھئے سورہ بقرہ، آیت 251 کا حاشیہ)۔ صَوَامِعُ (صَوْمَعَةٌ کی جمع) سے چھوٹے گرجے اور بِيَعٌ ( بِيعَةٌ کی جمع) سے بڑے گرجے صَلَوَاتٌ سے یہودیوں کے عبادت خانے اور مساجد سے مسلمانوں کی عبادت گاہیں مراد ہیں۔
(1) اس آیت میں اسلامی حکومت کی بنیادی اہداف اور اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں، جنہیں خلافت راشدہ کی دیگر اسلامی حکومتوں میں بروئے کار لایا گیا اور انہوں نے اپنی ترجیحات میں ان کو سر فہرست رکھا تو ان کی بدولت ان کی حکومتوں میں امن اور سکون بھی رہا، رفاہیت و خوش حالی بھی رہی اور مسلمان سربلند اور سرفراز بھی رہے۔ آج بھی سعودی عرب کی حکومت میں بحمد اللہ ان چیزوں کا اہتمام ہے، تو اس کی برکت سے وہ اب بھی امن و خوش حالی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اور مثالی مملکت ہے۔ آجکل اسلامی ملکوں میں فلاحی مملکت کے قیام کا بڑا غلغلہ اور شور ہے اور ہرآنے جانے والاحکمران اس کے دعوے کرتا ہے لیکن ہر اسلامی ملک میں بدامنی، فساد، قتل وغارت اور ادبار وپستی اور زبوں حالی روز افزوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کے ذریعے سے فلاح وکامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آسمان میں تھگلی لگانے اور ہوا کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہے جب تک مسلمان مملکتیں قرآن کے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق اقامت صلوۃ و زکوۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام نہیں کریں اور اپنی ترجیحات میں ان کو سرفہرست نہیں رکھیں گی وہ فلاحی ممللکت کے قیام میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔
(2) یعنی ہر بات کا مرجع اللہ کا حکم اور اس کی تدبیر ہی ہے اس کے حکم کے بغیر کائنات میں کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چہ جائیکہ کوئی اللہ کے احکام اور ضابطوں سے انحراف کرکے حقیقی فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔
(1) اس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو یہ نئی بات نہیں ہے پچھلی قومیں بھی اپنے پیغمبروں کے ساتھ یہی کچھ کرتی رہی ہیں اور میں بھی انہیں مہلت دیتا رہا۔ پھر جب ان کا وقت مہلت ختم ہوگیا تو انہیں تباہ برباد کر دیا گیا۔ اس میں تعریض وکنایہ ہے مشرکین مکہ کے لیے کہ تکذیب کے باوجود تم ابھی تک مؤاخذہ الہی سے بچے ہوئے ہو تو یہ نہ سمجھ لینا کہ ہمارا کوئی مؤاخذہ کرنے والا نہیں بلکہ یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے جو وہ ہر قوم کو دیا کرتا ہے لیکن اگر وہ اس اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اطاعت وانقیاد کا راستہ اختیار نہیں کرتی تو پھر اسے ہلاک یا مسلمانوں کے ذریعے سے مغلوب اور ذلت و رسوائی سے دوچار کردیا جاتا ہے۔
(2) یعنی کس طرح میں نے انہیں اپنی نعمتوں سے محروم کرکے عذاب و ہلاکت سے دو چار کر دیا۔
(1) اور جب کوئی قوم ضلالت کے اس مقام پر پہنچ جائے کہ عبرت کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے، تو ہدایت کی بجائے، گذشتہ قوموں کی طرح تباہی اس کا مقدر بن کر رہتی ہے۔ آیت میں عمل و عقل کا تعلق دل کی طرف کیا گیا ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عقل کا محل دل ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ محل عقل دماغ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں، اس لئے عقل و فہم کے حصول میں عقل اور دماغ دونوں کا آپس میں بڑا گہرا ربط وتعلق ہے (فتح القدیر، ایسر التفاسیر)