(1) مجوس سے مراد ایران کے آتش پرست ہیں جو دو خداؤں کے قائل ہیں، ایک ظلمت کا خالق ہے، دوسرا نور کا، جسے وہ اہرمن اور یزداں کہتے ہیں۔
(2) ان میں مذکورہ گمراہ فرقوں کے علاوہ جتنے بھی اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والے ہیں، سب آگئے۔
(3) ان میں سے حق پر کون ہے، باطل پر کون، یہ تو ان دلائل سے واضح ہو جاتا ہے جو اللہ اپنے قرآن میں نازل فرماتے ہیں اور اپنے آخری پیغمبر کو بھی اسی مقصد کے لئے بھیجا تھا، «لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ» (الفتح:28) یہاں فیصلے سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالٰی باطل پرستوں کو قیامت والے دن دے گا، اس سزا سے بھی واضح ہو جائے گا کہ دنیا میں حق پر کون تھا اور باطل پر کون کون۔
(1) یہ فیصلہ محض حاکمانہ اختیارات کے زور پر نہیں ہوگا، بلکہ عدل و انصاف کے مطابق ہوگا، کیونکہ وہ باخبر ہستی ہے، اسے ہرچیز کا علم ہے۔
(2) بعض مفسرین نے اس سجدے سے ان تمام چیزوں کا احکام الٰہی کے تابع ہونا مراد لیا ہے، کسی میں مجال نہیں کہ وہ حکم الٰہی سے سرتابی کر سکے۔ ان کے نزدیک وہ سجدہ اطاعت و عبادت مراد نہیں جو صرف عقلا کے ساتھ خاص ہے۔ جب کہ بعض مفسرین نے اسے مجاز کے بجائے حقیقت پر مبنی کیا ہے کہ ہر مخلوق اپنے اپنے انداز سے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے مثلا «مَنْ فِي السَّمَواتِ»سے مراد فرشتے ہیں«وَمَنْ فِي الأَرْضِ» سے ہر قسم کے حیوانات، انسان، جنات، چوپائے اور پرندے اور دیگر اشیاء ہیں یہ سب اپنے اپنے انداز سے سجدہ اور تسبیح کرتی ہیں «وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِه» (الاسراء:44)۔ سورج چاند اور ستاروں کا بطور خاص اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ مشرکین ان کی عبادت کرتے رہے ہیں اللہ تعالٰی نے بیان فرمایا تم ان کو سجدہ کرتے ہو یہ تو اللہ تعالٰی کو سجدہ کرنے والے ہیں اور اس کے ماتحت ہیں اس لیے تم انہیں سجدہ مت کرو اس ذات کو سجدہ کرو جو ان کا خالق ہے۔ (حم السجدہ: ۳۷) صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ذر (رضي الله عنه) فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے پوچھا، جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا، اللہ اور اس کا رسول (صلى الله عليه وسلم) ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا سورج جاتا ہے اور عرش کے نیچے جاکر سجدہ ریز ہو جاتا ہے پھر اسے (طلوع ہونے کا) حکم دیا جاتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اسے کہا جائے گا واپس لوٹ جا یعنی جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جا۔ (صحيح بخاري، بدء الخلق، باب صفة الشمس والقمر بحسبان - مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الزمن الذي لا يقبل فيه الإيمان) اسی طرح صحابی کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے خواب میں اپنے ساتھ درخت کو سجدہ کرتے دیکھا (ترمذي، أبواب السفر، باب ما يقول في سجود القرآن تحفة الأحوذي، صفحة 402 ، ابن ماجه 1053) اور پہاڑوں اور درختوں کے سجدے میں ان سایوں کا دائیں بائیں پھرنا یا جھکنا بھی شامل ہے جس طرف اشارہ سورۃ الرعد 15اور النحل 48، 49 میں بھی کیا گیا ہے۔
(3) یہ سجدہ اطاعت و عبادت ہی ہے جس کو انسانوں کی ایک بڑی تعداد کرتی ہے اور اللہ کی رضا کی مستحق قرار پاتی ہے۔
(4) یہ وہ ہیں جو سجدہ اطاعت سے انکار کرکے کفر اختیار کرتے ہیں، ورنہ تکوینی احکام یعنی سجدہ انقیاد میں تو انہیں بھی مجال انکار نہیں۔
(5) کفر اختیار کرنے کا نتیجہ ذلت و رسوائی اور آخرت کا دائمی عذاب ہے، جس سے بچا کر کافروں کو عزت دینے والا کوئی نہیں ہوگا۔
(1) هَذَانِ خَصْمَانِ یہ دونوں تثنیہ کے صیغے ہیں بعض نے اس سے مراد مذکورہ گمراہ فرقے اور اس کے مقابلے میں دوسرا فرقہ مسلمان کو لیا ہے۔ یہ دونوں اپنے رب کے بارے میں جھگڑتے ہیں، مسلمان تو وحدانیت اور اس کی قدرت علی البعث کے قائل ہیں، جب کہ دوسرے اللہ کے بارے میں مختلف گمراہیوں میں مبتلا ہیں۔ اس ضمن میں جنگ بدر میں لڑنے والے مسلمان اور کافر بھی آجاتے ہیں، جس کے آغاز میں مسلمانوں میں ایک طرف حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدۃ (رضي الله عنهم)تھے اور دوسری طرف ان کے مقابلے میں کافروں میں عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ تھے (صحیح بخاری، تفسیر سورة الحج)امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ دونوں ہی مفہوم صحیح اور آیت کے مطابق ہیں۔
(1) اس میں جہنمیوں کے عذاب کی کچھ تفصیل بیان کی گئی ہے جو انہیں وہاں بھگتنا ہوگا۔
(1) جہنمیوں کے مقابلے میں یہ اہل جنت کا اور ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جو اہل ایمان کو مہیا کی جائیں گی۔