ترجمة معاني القرآن الكريم - الترجمة الأردية - محمد جوناكرهي

رقم الصفحة:close

external-link copy
99 : 20

كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ— وَقَدْ اٰتَیْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًا ۟ۖۚ

اسی طرح ہم تیرے(1) سامنے پہلے کی گزری ہوئی وارداتیں بیان فرما رہے ہیں اور یقیناً ہم تجھے اپنے پاس سے نصیحت عطا فرما چکے ہیں.(2) info

(1) یعنی جس طرح ہم نے فرعون و موسیٰ (عليه السلام) کا قصہ بیان کیا، اسی طرح انبیاء کے حالات ہم آپ پر بیان کر رہے ہیں تاکہ آپ ان سے باخبر ہوں، اور ان میں عبرت کے پہلو ہوں، انہیں لوگوں کے سامنے نمایاں کریں تاکہ لوگ اس کی روشنی میں صحیح رویہ اختیار کریں۔
(2) نصیحت (ذکر) سے مراد قرآن عظیم ہے۔ جس سے بندہ اپنے رب کو یاد کرتا، ہدایت اختیار کرتا اور نجات و سعادت کا راستہ اپناتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
100 : 20

مَنْ اَعْرَضَ عَنْهُ فَاِنَّهٗ یَحْمِلُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وِزْرًا ۟ۙ

اس سے جو منھ پھیر لے گا(1) وه یقیناً قیامت کے دن اپنا بھاری بوجھ ﻻدے ہوئے ہوگا.(2) info

(1) یعنی اس پر ایمان نہیں لائے گا اور اس میں جو کچھ درج ہے، اس پر عمل نہیں کرے گا۔
(2) یعنی گناہ عظیم اس لئے کہ اس کا نامہ اعمال، نیکیوں سے خالی اور برائیوں سے پر ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
101 : 20

خٰلِدِیْنَ فِیْهِ ؕ— وَسَآءَ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ حِمْلًا ۟ۙ

جس میں ہمیشہ ہی رہے گا(1) ، اور ان کے لئے قیامت کے دن (بڑا) برا بوجھ ہے. info

(1) جس سے وہ بچ نہ سکے گا، نہ ہی بھاگ سکے گا۔

التفاسير:

external-link copy
102 : 20

یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا ۟

جس دن صور(1) پھونکا جائے گا اور گناه گاروں کو ہم اس دن (دہشت کی وجہ سے) نیلی پیلی آنکھوں کے ساتھ گھیر ﻻئیں گے. info

(1) صُورٌ سے مراد وہ قَرْنٌ (نرسنگا) ہے، جس میں اسرافیل (عليه السلام) اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے تو قیامت برپا ہو جائے گی (مسند احمد: 2/191)، ایک اور حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”اسرافیل (عليه السلام) نے قرن کالقمہ بنایا ہوا ہے، (یعنی اسے منہ سے لگائے کھڑا ہے) پیشانی جھکائی یا موڑی ہوئی ہے، رب کے حکم کے انتظار میں ہے کہ کب اسے حکم دیا جائے اور وہ اس میں پھونک مار دے“۔ ( ترمذي، باب صفة القيامة، باب ما جاء في الصور) حضرت اسرافیل (عليه السلام) کے پہلے نفخے سے سب پر موت طاری ہو جائیگی، اور دوسرے نفخے سے بحکم الٰہی سب زندہ اور میدان محشر میں جمع ہو جائیں گے۔ آیت میں یہی دوسرا نفخہ مراد ہے۔

التفاسير:

external-link copy
103 : 20

یَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَهُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا ۟

وه آپس میں چپکے چپکے کہہ رہے(1) ہوں گے کہ ہم تو (دنیا میں) صرف دس دن ہی رہے. info

(1) شدت ہول اور دہشت کی وجہ سے ایک دوسرے سے چپکے چپکے باتیں کریں گے۔

التفاسير:

external-link copy
104 : 20

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اِذْ یَقُوْلُ اَمْثَلُهُمْ طَرِیْقَةً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا ۟۠

جوکچھ وه کہہ رہے ہیں اس کی حقیقت سے ہم باخبر ہیں ان میں سب سے زیاده اچھی راه(1) واﻻ کہہ رہا ہو گا کہ تم تو صرف ایک ہی دن رہے. info

(1) یعنی سب سے زیادہ عاقل اور سمجھدار۔ یعنی دنیا کی زندگی انہیں چند دن بلکہ گھڑی دو گھڑی کی محسوس ہوگی۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا «وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ» (الروم:55) ”جس دن قیامت برپا ہوگی کافر قسمیں کھا کر کہیں گے کہ وہ (دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے“ یہی مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلا سورہ فاطر: ۳۷، سورۃ المؤمنون: ۱۱۲۔۱۱4، سورۃ النازعات وغیرہ۔ مطلب یہی ہے فانی زندگی کو باقی رہنے والی زندگی پر ترجیح نہ دی جائے۔

التفاسير:

external-link copy
105 : 20

وَیَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُهَا رَبِّیْ نَسْفًا ۟ۙ

وه آپ سے پہاڑوں کی نسبت سوال کرتے ہیں، تو آپ کہہ دیں کہ انہیں میرا رب ریزه ریزه کر کے اڑا دے گا. info
التفاسير:

external-link copy
106 : 20

فَیَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا ۟ۙ

اور زمین کو بالکل ہموار صاف میدان کر کے چھوڑے گا. info
التفاسير:

external-link copy
107 : 20

لَّا تَرٰی فِیْهَا عِوَجًا وَّلَاۤ اَمْتًا ۟ؕ

جس میں تو نہ کہیں موڑ دیکھے گا نہ اونچ نیچ. info
التفاسير:

external-link copy
108 : 20

یَوْمَىِٕذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ لَا عِوَجَ لَهٗ ۚ— وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا هَمْسًا ۟

جس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چلیں(1) گے جس میں کوئی کجی نہ ہوگی(2) اور اللہ رحمنٰ کے سامنے تمام آوازیں پست ہو جائیں گی سوائے کھسر پھسر کے تجھے کچھ بھی سنائی نہ دے گا.(3) info

(1) یعنی جس دن اونچے نیچے پہاڑ، وادیاں، فلک بوس عمارتیں، سب صاف ہو جائیں گی، سمندر اور دریا خشک ہو جائیں گے، اور ساری زمین صاف چٹیل میدان ہو جائی گی۔ پھر ایک آواز آئیگی، جس کے پیچھے سارے لوگ لگ جائیں گے یعنی جس طرف وہ داعی بلائے گا، جائیں گے۔
(2) یعنی اس داعی سے ادھر ادھر نہیں ہو نگے۔
(3) یعنی مکمل سناٹا ہوگا سوائے قدموں کی آہٹ اور کھسر پھسر کے کچھ سنائی نہیں دے گا۔

التفاسير:

external-link copy
109 : 20

یَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَهٗ قَوْلًا ۟

اس دن سفارش کچھ کام نہیں آئے گی مگر جسے رحمنٰ حکم دے اور اس کی بات کو پسند فرمائے.(1) info

(1) یعنی اس دن کسی کی سفارش کسی کو فائدہ نہیں پہنچائے گی، سوائے ان کے جن کو رحمٰن شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، اور وہ بھی ہر کسی کی سفارش نہیں کریں گے بلکہ صرف ان کی سفارش کریں گے جن کی بابت سفارش کو اللہ پسند فرمائے گا اور یہ کون لوگ ہونگے؟ صرف اہل توحید، جن کے حق میں اللہ تعالٰی سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلا سورہ نجم:26، سورہ انبیاء: ۲۸، سورہ سباء:۲۳، سورہ النباء: ۳۸ اور آیت الکرسی۔

التفاسير:

external-link copy
110 : 20

یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا ۟

جو کچھ ان کے آگے پیچھے ہے اسے اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہو سکتا.(1) info

(1) گزشتہ آیت میں شفاعت کے لیے جو اصول بیان فرمایا گیا ہے اس میں اس کی وجہ اور علت بیان کر دی گئی ہے کہ چونکہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کسی کی بابت پورا علم نہیں ہے کہ کون کتنا بڑا مجرم ہے؟ اور وہ اس بات کا مستحق ہے بھی یا نہیں کہ اس کی سفارش کی جا سکے؟ اس لیے اس بات کا فیصلہ بھی اللہ تعالٰی ہی فرمائے گا کہ کون کون لوگ انبیاء وصلحا کی سفارش کے مستحق ہیں؟ کیونکہ ہر شخص کے جرائم کی نوعیت وکیفیت کو اس کے سواء کوئی نہیں جانتا اور نہ جان ہی سکتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
111 : 20

وَعَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ ؕ— وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا ۟

تمام چہرے اس زنده اور قائم دائم مدبر، اللہ کے سامنے کمال عاجزی سے جھکے ہوئے ہونگے، یقیناً وه برباد ہوا جس نے ﻇلم ﻻد لیا.(1) info

(1) اس لئے کہ اس روز اللہ تعالٰی مکمل انصاف فرمائے گا اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دلائے گا۔ حتٰی کہ اگر ایک سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری پر ظلم کیا ہوگا، تو اس کا بھی بدلہ دلایا جائے گا۔ (صحيح مسلم ، كتاب البر، مسند أحمد، ج 2، ص235)، اسی لئے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا «لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا»، ”ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دو ورنہ قیامت کو دینا پڑے گا“۔ دوسری حدیث میں فرمایا «إِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ؛ فَإِنَّ الظُّلْمَ؛ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» ( صحيح مسلم، كتاب مذكور، باب تحريم الظلم )، ”ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہوگا“، سب سے نامراد وہ شخص ہوگا جس نے شرک کا بوجھ بھی لاد رکھا ہوگا، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم بھی ہے اور ناقابل معافی بھی۔

التفاسير:

external-link copy
112 : 20

وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا هَضْمًا ۟

اور جو نیک اعمال کرے اور ایمان واﻻ بھی ہو تو نہ اسے بے انصافی کا کھٹکا ہوگا نہ حق تلفی کا.(1) info

(1) بے انصافی یہ ہے کہ اس پر دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے اور حق تلفی یہ ہے کہ نیکیوں کا اجر کم دیا جائے۔ یہ دونوں باتیں وہاں نہیں ہونگی۔

التفاسير:

external-link copy
113 : 20

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا وَّصَرَّفْنَا فِیْهِ مِنَ الْوَعِیْدِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ اَوْ یُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا ۟

اسی طرح ہم نے تجھ پر عربی قرآن نازل فرمایا ہے اور طرح طرح سے اس میں ڈر کا بیان سنایا ہے تاکہ لوگ پرہیز گار بن(1) جائیں یا ان کے دل میں سوچ سمجھ تو پیدا کرے.(2) info

(1) یعنی گناہ، محرمات اور فواحش کے ارتکاب سے باز آ جائیں۔
(2) یعنی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا شوق یا پچھلی امتوں کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرنے کا جذبہ ان کے اندر پیدا کر دے۔

التفاسير: