ترجمة معاني القرآن الكريم - الترجمة الأردية - محمد جوناكرهي

رقم الصفحة:close

external-link copy
77 : 20

وَلَقَدْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰی مُوْسٰۤی ۙ۬— اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا ۙ— لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰی ۟

ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں رات میرے بندوں کو لے چل(1) ، اور ان کے لئے دریا میں خشک راستہ بنا لے(2)، پھر نہ تجھے کسی کے آپکڑنے کا خطره ہوگا نہ ڈر.(3) info

(1) جب فرعون ایمان بھی نہیں لایا اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کرنے پر آمادہ نہیں ہوا، تو اللہ تعالٰی نے موسیٰ (عليه السلام) کو یہ حکم دیا۔
(2) اس کی تفصیل سورۃ الشعرا میں آئے گی کہ موسیٰ (عليه السلام) نے اللہ کے حکم سے سمندر میں لاٹھی ماری، جس سے سمندر میں گزرنے کے لئے خشک راستہ بن گیا۔
(3) خطرہ فرعون اور اس کے لشکر کا اور ڈر پانی میں ڈوبنے کا۔

التفاسير:

external-link copy
78 : 20

فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِهٖ فَغَشِیَهُمْ مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَهُمْ ۟ؕ

فرعون نے اپنے لشکروں سمیت ان کا تعاقب کیا پھر تو دریا ان سب پر چھا گیا جیسا کچھ چھا جانے واﻻ تھا.(1) info

(1) یعنی اس خشک راستے پر جب فرعون اور اس کا لشکر چلنے لگا، تو اللہ نے سمندر کو حکم دیا کہ حسب سابق رواں دواں ہو جا، چنانچہ وہ خشک راستہ چشم زدن پانی کی موجوں میں تبدیل ہوگیا اور فرعون سمیت سارا لشکر غرق ہوگیا۔ غَشِيَهُمْ، کے معنی ہیں عَلاهُمْ وَأَصَابَهُمْ سمندر کا پانی ان پر غالب آ گیا۔ مَا غَشِيَهُمْ یہ تکرار تعظیم وتہویل یعنی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے یا اس کے معنی ہیں”جو کہ مشہور ومعروف ہے“۔

التفاسير:

external-link copy
79 : 20

وَاَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهٗ وَمَا هَدٰی ۟

فرعون نے اپنی قوم کو گمراہی میں ڈال دیا اور سیدھا راستہ نہ دکھایا.(1) info

(1) اس لئے کہ سمندر میں غرق ہونا ان کا مقدر تھا۔

التفاسير:

external-link copy
80 : 20

یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ قَدْ اَنْجَیْنٰكُمْ مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوٰعَدْنٰكُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَیْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی ۟

اے بنی اسرائیل! دیکھو ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی اور تم سے کوه طور کی دائیں طرف کا وعده(1) کیا اور تم پر من وسلویٰ اتارا.(2) info

(1) وَوَاعَدْنَاكُمْ میں ضمیر جمع مخاطب کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (عليه السلام) کوہ طور پر تمہیں یعنی تمہارے نمائندے بھی ساتھ لے کر آئیں تاکہ تمہارے سامنے ہی ہم موسیٰ (عليه السلام) سے ہم کلام ہوں، یا ضمیر جمع اس لئے لائی گئی کہ کوہ طور پر موسیٰ (عليه السلام) کو بلانا، بنی اسرائیل ہی کی خاطر اور انہی کی ہدایت و رہنمائی کے لئے تھا۔
(2) مَنٌّ وَسَلْوَى کے نزول کا واقعہ، سورہ بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے۔ مَنٌّ کوئی میٹھی چیز تھی جو آسمان سے نازل ہوئی تھی اور سَلْوَىٰ سے مراد بٹیر پرندے ہیں جو کثرت سے ان کے پاس آتے اور وہ حسب ضرورت انہیں پکڑ کر پکاتے اور کھا لیتے۔ (ابن کثیر)

التفاسير:

external-link copy
81 : 20

كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِیْهِ فَیَحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبِیْ ۚ— وَمَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْهِ غَضَبِیْ فَقَدْ هَوٰی ۟

تم ہماری دی ہوئی پاکیزه روزی کھاؤ، اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو(1) ، ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہوگا، اور جس پر میرا غضب نازل ہو جائے وه یقیناً تباه ہوا.(2) info

(1) طُغْيَانٌ کے معنی ہیں تجاوز کرنا، یعنی حلال اور جائز چیزوں کو چھوڑ کر حرام اور ناجائز چیزوں کی طرف تجاوز مت کرو، یا اللہ کی نعمتوں کا انکار کر کے یا کفر ان نعمت کا ارتکاب کر کے اور نافرمانی کر کے حد سے تجاوز نہ کرو، ان تمام مفہومات پر طغیان کا لفظ صادق آتا ہے اور بعض نے کہا کہ طغیان کا مفہوم ہے، ضرورت و حاجت سے زیادہ پرندے پکڑنا یعنی حاجت کے مطابق پرندے پکڑو اور اس سے تجاوز مت کرو۔
(2) دوسرے معنی یہ بیان کئے گئے ہیں کہ وہ ہاویہ یعنی جہنم میں گرا۔ ہاویہ جہنم کا نچلا حصہ ہے، یعنی جہنم کی گہرائی والے حصے کا مستحق ہوگیا۔

التفاسير:

external-link copy
82 : 20

وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰی ۟

ہاں بیشک میں انہیں بخش دینے واﻻ ہوں جو توبہ کریں ایمان ﻻئیں نیک عمل کریں اور راه راست پر بھی رہیں.(1) info

(1) یعنی مغفرت الٰہی کا مستحق بننے کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں۔ کفر و شرک اور معاصی سے توبہ، ایمان، عمل صالح اور راہ راست پر چلتے رہنا یعنی استقلال حتٰی کہ ایمان ہی پر اسے موت آئے، ورنہ ظاہر بات ہے کہ توبہ و ایمان کے بعد اگر اس نے پھر شرک کا راستہ اختیار کر لیا، حتٰی کہ موت بھی اسے کفر و شرک پر ہی آئے تو مغفرت الٰہی کے بجائے عذاب کا مستحق ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
83 : 20

وَمَاۤ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ یٰمُوْسٰی ۟

اے موسیٰ! تجھے اپنی قوم سے (غافل کرکے) کون سی چیز جلدی لے آئی؟ info
التفاسير:

external-link copy
84 : 20

قَالَ هُمْ اُولَآءِ عَلٰۤی اَثَرِیْ وَعَجِلْتُ اِلَیْكَ رَبِّ لِتَرْضٰی ۟

کہا کہ وه لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے ہیں، اور میں نے اے رب! تیری طرف جلدی اس لئے کی کہ تو خوش ہو جائے.(1) info

(1) سمندر پار کرنے کے بعد موسیٰ (عليه السلام) اسرائیل کے سربرآوردہ لوگوں کو ساتھ لے کر کوہ طور کی طرف چلے، لیکن رب کے شوق ملاقات میں تیز رفتاری سے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر اکیلے ہی طور پر پہنچ گئے، سوال کرنے پر جواب دیا، مجھے تو تیری رضا کی طلب اور اس کی جلدی تھی۔ وہ لوگ میرے پیچھے ہی آ رہے ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے پیچھے آ رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ میرے پیچھے کوہ طور کے قریب ہی ہیں اور وہاں میری واپسی کے منتظر ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
85 : 20

قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَاَضَلَّهُمُ السَّامِرِیُّ ۟

فرمایا! ہم نے تیری قوم کو تیرے پیچھے آزمائش میں ڈال دیا اور انہیں سامری نے بہکا دیا ہے.(1) info

(1) حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے بعد سامری نامی شخص نے بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجنے پر لگا دیا، جس کی اطلاع اللہ تعالٰی نے طور پر موسیٰ (عليه السلام) کو دی کہ سامری نے تیری قوم کو گمراہ کر دیا ہے، فتنے میں ڈالنے کی نسبت اللہ نے اپنی طرف باحیثیت خالق کے کی ہے، ورنہ اس گمراہی کا سبب تو سامری ہی تھا۔ جیسا کہ أَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ سے واضح ہے۔

التفاسير:

external-link copy
86 : 20

فَرَجَعَ مُوْسٰۤی اِلٰی قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ۚ۬— قَالَ یٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ؕ۬— اَفَطَالَ عَلَیْكُمُ الْعَهْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ ۟

پس موسیٰ (علیہ السلام) سخت غضبناک ہو کر رنج کے ساتھ واپس لوٹے، اور کہنے لگے کہ اے میری قوم والو! کیا تم سے تمہارے پروردگار نے نیک وعده نہیں کیا (1) تھا؟ کیا اس کی مدت تمہیں لمبی معلوم ہوئی(2)؟ بلکہ تمہارا اراده ہی یہ ہے کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب نازل ہو؟ کہ تم نے میرے وعدے کا خلاف کیا.(3) info

(1) اس سے مراد جنت کا یا فتح و ظفر کا وعدہ ہے اگر وہ دین پر قائم رہے یا تورات عطا کرنے کا وعدہ ہے، جس کے لئے طور پر انہیں بلایا گیا تھا۔
(2) کیا اس عہد کو مدت دراز گزر گئی تھی کہ تم بھول گئے، اور بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔
(3) قوم نے موسیٰ (عليه السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی طور سے واپسی تک وہ اللہ کی اطاعت و عبادت پر قائم رہیں گے، یا یہ وعدہ تھا کہ ہم بھی طور پر آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں لیکن راستے میں ہی رک کر انہوں نے گو سالہ پرستی شروع کر دی۔

التفاسير:

external-link copy
87 : 20

قَالُوْا مَاۤ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَاۤ اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَی السَّامِرِیُّ ۟ۙ

انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنےاختیار سے آپ کے ساتھ وعدے کا خلاف نہیں کیا(1) ۔ بلکہ ہم پر زیورات قوم کے جو بوجھ ﻻد دیے گئے تھے انہیں ہم نے ڈال دیا، اور اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیئے. info

(1) یعنی ہم نے اپنے اختیار سے یہ کام نہیں کیا بلکہ غلطی ہم سے اضطراری طور پر ہوگئی، آگے اس کی وجہ بیان کی۔

التفاسير: