ترجمة معاني القرآن الكريم - الترجمة الأردية - محمد جوناكرهي

رقم الصفحة:close

external-link copy
13 : 20

وَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰی ۟

اور میں نے تجھے منتخب کر لیا(1) اب جو وحی کی جائے اسے کان لگا کر سن. info

(1) یعنی نبوت و رسالت اور ہم کلامی کے لئے۔

التفاسير:

external-link copy
14 : 20

اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْ ۙ— وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ ۟

بیشک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا عبادت کے ﻻئق اور کوئی نہیں پس تو میری ہی عبادت کر(1) ، اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ.(2) info

(1) یعنی تکلیفات میں سب سے پہلا اور سب سے اہم حکم ہے جس کا ہر انسان پر تکلف ہی ہے۔ علاوہ ازیں جب الوہیت کا مستحق بھی وہی ہے تو عبادت بھی صرف اسی کا حق ہے۔
(2) عبادت کے بعد نماز کا خصوصی حکم دیا۔ حالانکہ عبادت میں نماز بھی شامل تھی، تاکہ اس کی وہ اہمیت واضح ہو جائے جیسے کہ اس کی ہے۔ لِذِكْرِي کا ایک مطلب یہ ہے کہ تو مجھے یاد کرے، اسلئے یاد کرنے کا طریقہ عبادت ہے اور عبادت میں نماز کو خصوصی اہمیت وفضیلت حاصل ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی میں تجھے یاد آ جاؤں نماز پڑھ، یعنی اگر کسی وقت غفلت یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی اور میری یاد آتے ہی نماز پڑھ۔ جس طرح کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”جو نماز سے سو جائے یا بھول جائے، تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے یاد آئے پڑھ لے“۔ (صحيح بخاري، كتاب المواقيت، باب من نسي صلاة فليصل إذا ذكرها، ومسلم، كتاب المساجد باب قضاء الصلاة الفائتة)

التفاسير:

external-link copy
15 : 20

اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ اَكَادُ اُخْفِیْهَا لِتُجْزٰی كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی ۟

قیامت یقیناً آنے والی ہے جسے میں پوشیده رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو وه بدلہ دیا جائے جو اس نے کوشش کی ہو. info
التفاسير:

external-link copy
16 : 20

فَلَا یَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَّا یُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ فَتَرْدٰی ۟

پس اب اس کے یقین سے تجھے کوئی ایسا شخص روک نہ دے جو اس پر ایمان نہ رکھتا ہو اور اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہو، ورنہ تو ہلاک ہوجائے گا.(1) info

(1) اس لئے کہ آخرت پر یقین کرنے سے یا اس کے ذکر و مراقبے سے گریز، دونوں ہی باتیں ہلاکت کا باعث ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
17 : 20

وَمَا تِلْكَ بِیَمِیْنِكَ یٰمُوْسٰی ۟

اے موسیٰ! تیرے اس دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ info
التفاسير:

external-link copy
18 : 20

قَالَ هِیَ عَصَایَ ۚ— اَتَوَكَّؤُا عَلَیْهَا وَاَهُشُّ بِهَا عَلٰی غَنَمِیْ وَلِیَ فِیْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰی ۟

جواب دیا کہ یہ میری ﻻٹھی ہے، جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور جس سے میں اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑ لیا کرتا ہوں اور بھی اس میں مجھے بہت سے فائدے ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
19 : 20

قَالَ اَلْقِهَا یٰمُوْسٰی ۟

فرمایا اے موسیٰ! اسے ہاتھ سے نیچے ڈال دے. info
التفاسير:

external-link copy
20 : 20

فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعٰی ۟

ڈالتے ہی وه سانﭗ بن کر دوڑنے لگی info
التفاسير:

external-link copy
21 : 20

قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ ۫— سَنُعِیْدُهَا سِیْرَتَهَا الْاُوْلٰی ۟

فرمایا بے خوف ہو کر اسے پکڑ لے، ہم اسے اسی پہلی سی صورت میں دوباره ﻻ دیں گے.(1) info

(1) یہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو معجزہ عطا کیا گیا جو عصائے موسیٰ (عليه السلام) کے نام سے مشہور ہے۔

التفاسير:

external-link copy
22 : 20

وَاضْمُمْ یَدَكَ اِلٰی جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰی ۟ۙ

اور اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ڈال لے تو وه سفید چمکتا ہوا ہو کر نکلے گا، لیکن بغیر کسی عیب (اور روگ) کے(1) یہ دوسرا معجزه ہے. info

- بغیر عیب اور روگ کے، کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کا اس طرح سفید اور چمک دار ہو کر نکلنا، کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ برص کے مریض کی چمڑی سفید ہو جاتی ہے۔ بلکہ یہ دوسرا معجزہ ہے، جو ہم تجھے عطا کر رہے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر ان دونوں معجزوں کا ذکر فرمایا «فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِنْ رَبِّكَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ» (القصص ۔32)، «پس یہ دو دلیلیں ہیں تیرے پروردگار کی طرف سے، فرعون اور اس کے سرداروں کے لئے »۔

التفاسير:

external-link copy
23 : 20

لِنُرِیَكَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْكُبْرٰی ۟ۚ

یہ اس لئے کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھانا چاہتے ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
24 : 20

اِذْهَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰی ۟۠

اب تو فرعون کی طرف جا اس نے بڑی سرکشی مچا رکھی ہے.(1) info

(1) فرعون کا ذکر اس لئے کیا کہ اس نے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کے ظلم روا رکھتا تھا۔ علاوہ ازیں اس کی سرکشی و طغیانی بھی بہت بڑھ گئی تھی حتٰی کہ وہ دعویٰ کرنے لگا تھا «اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى» (النازعات:24) «”یں تمہارا بلند تر رب ہوں“۔

التفاسير:

external-link copy
25 : 20

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ ۟ۙ

موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ میرے لئے کھول دے. info
التفاسير:

external-link copy
26 : 20

وَیَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْ ۟ۙ

اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے. info
التفاسير:

external-link copy
27 : 20

وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ ۟ۙ

اور میری زبان کی گره بھی کھول دے. info
التفاسير:

external-link copy
28 : 20

یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ ۪۟

تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں. info
التفاسير:

external-link copy
29 : 20

وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ ۟ۙ

اور میرا وزیر میرے کنبے میں سے کر دے. info
التفاسير:

external-link copy
30 : 20

هٰرُوْنَ اَخِی ۟ۙ

یعنی میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو. info
التفاسير:

external-link copy
31 : 20

اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ ۟ۙ

تو اس سے میری کمر کس دے. info
التفاسير:

external-link copy
32 : 20

وَاَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ ۟ۙ

اور اسے میرا شریک کار کر دے.(1) info

(1) کہتے ہیں کہ موسیٰ (عليه السلام) جب فرعون کے شاہی محل میں زیر پرورش تھے تو کھجور یا موتی کی بجائے آگ کا انگارا منہ میں ڈال لیا تھا جس سے ان کی زبان جل گئی اور اس میں لکنت پیدا ہوگئی (ابن کثیر) جب اللہ تعالٰی نے انہیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر میرا پیغام پہنچاؤ تو حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے دل میں دو باتیں آئیں ایک تو یہ کہ وہ بڑا جابر اور متکبر بادشاہ ہے بلکہ رب ہونے تک کا دعویدار ہے دوسرا یہ کہ موسیٰ (عليه السلام) کے ہاتھوں اس کی قوم کا ایک آدمی مارا گیا تھا اور جس کی وجہ سے موسیٰ کو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکلنا پڑا تھا یعنی ایک فرعون کی عظمت وجباریت کا خوف اور دوسرا اپنے ہاتھوں ہونے والے واقعہ کا اندیشہ اور ان دونوں پر زائد تیسری بات زبان میں لکنت۔ حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! میرا سینہ کھول دے تاکہ میں رسالت کا بوجھ اٹھا سکوں میرے کام کو آسان فرما دے یعنی جو مہم مجھے درپیش ہے اس میں میری مدد فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ فرعون کے سامنے میں پوری وضاحت سے تیرا پیغام پہنچا سکوں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اپنا دفاع بھی کر سکوں۔ اس کے ساتھ یہ دعا بھی کی کہ میرے بھائی ہارون (عليه السلام) کو (کہتے ہیں کہ یہ عمر میں موسیٰ عليه السلام سے بڑے تھے) بطور معین اور مددگار، میرا وزیر اور شریک کار بنا دے۔ وَزِيرٌ مُوَازِرٌ کے معنی میں ہے یعنی بوجھ اٹھانے والا جس طرح ایک وزیر بادشاہ کا بوجھ اٹھاتا ہے اور امور مملکت میں اسکا مشیر ہوتا ہے اسی طرح ہارون (عليه السلام) میرا مشیر اور بوجھ اٹھانے والا ساتھی ہو۔

التفاسير:

external-link copy
33 : 20

كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًا ۟ۙ

تاکہ ہم دونوں بکثرت تیری تسبیح بیان کریں. info
التفاسير:

external-link copy
34 : 20

وَّنَذْكُرَكَ كَثِیْرًا ۟ؕ

اور بکثرت تیری یاد کریں.(1) info

(1) یہ دعاؤں کی علت بیان کی کہ اس طرح ہم تبلیغ رسالت کے ساتھ ساتھ تیری تسبیح اور تیرا ذکر بھی زیادہ کر سکیں۔

التفاسير:

external-link copy
35 : 20

اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا ۟

بیشک تو ہمیں خوب دیکھنے بھالنے واﻻ ہے.(1) info

- یعنی تجھے سارے حالات کا علم ہے اور بچپن میں جس طرح تو نے ہم پر احسان کئے، اب بھی اپنے احسانات سے ہمیں محروم نہ رکھ۔

التفاسير:

external-link copy
36 : 20

قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰی ۟

جناب باری تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ تیرے تمام سواﻻت پورے کر دیئے گئے.(1) info

(1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ، اللہ تعالٰی نے زبان کی لکنت کو بھی دور فرما دیا ہوگا۔ اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں کہ موسیٰ (عليه السلام) نے چونکہ پوری لکنت دور کرنے کی دعا نہیں کی تھی، اس لئے کچھ باقی رہ گئی تھی۔ باقی رہا فرعون کا یہ کہنا «وَلا يَكَادُ يُبِينُ» (الزخرف:52) ”یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا“، یہ ان کی تنقیص گزشتہ کیفیت کے اعتبار سے ہے۔ (ایسر التفاسیر)

التفاسير:

external-link copy
37 : 20

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْكَ مَرَّةً اُخْرٰۤی ۟ۙ

ہم نے تو تجھ پرایک بار اور بھی بڑا احسان کیا ہے.(1) info

(1) قبولیت دعا کی خوشخبری کے ساتھ مزید تسلی اور حوصلے کے لئے اللہ تعالٰی بچپن کے اس احسان کا ذکر فرما رہا ہے، جب موسیٰ (عليه السلام) کی ماں نے قتل کے اندیشے سے اللہ کے حکم سے،(یعنی القائے الٰہی) سے انہیں، جب وہ شیر خوار بچے تھے تابوت میں ڈل کر دریا کے سپرد کر دیا تھا۔

التفاسير: