(1) یعنی بغیر تحقیق کئے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے جو خیانت کرنے والوں کی حمایت کی ہے، اس پر اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فریقین میں سے جب تک کسی کی بابت پورا یقین نہ ہو کہ وہ حق پر ہے، اس کی حمایت ووکالت کرنا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں اگر کوئی فریق دھوکے اور فریب اور اپنی چرب زبانی سے عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کرا لے گا درآں حالیکہ وہ صاحب حق نہ ہو تو ایسے فیصلے کی عنداللہ کوئی اہمیت نہیں۔ اس بات کو نبی (صلى الله عليه وسلم) نے ایک حدیث میں اس طرح بیان فرمایا خبردار ! میں ایک انسان ہی ہوں اور جس طرح میں سنتا ہوں، اسی کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہوں۔ ممکن ہے ایک شخص اپنی دلیل وحجت پیش کرنے میں تیز طرار اور ہشیار ہو اور میں اس کی گفتگو سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں درآں حالیکہ وہ حق پر نہ ہو اور اس طرح میں دوسرے مسلمان کا حق اسے دے دوں، اسے یاد رکھنا چاہئے کہ یہ آگ کا ٹکڑا ہے۔ یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔ (صحيح بخاري، كتاب الشهادة والحيل والأحكام- صحيح مسلم، كتاب الأقضية)
(1) یعنی جب اس گناہ کی وجہ سے اس کا مواخذہ ہوگا تو کون اللہ کی گرفت سے اسے بچا سکے گا؟۔
(1) اس مضمون کی ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى“ (بنی اسرائیل: 15) (کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) یعنی کوئی کسی کا ذمہ دار نہیں ہوگا، ہر نفس کو وہی کچھ ملے گا جو وہ کما کر ساتھ لے گیا ہوگا۔
(1) جس طرح بنو ابیرق نے کیا کہ چوری خود کی اور تہمت کسی اور پر دھر دی۔ یہ زجرو توبیخ عام ہے۔ جو بنو ابیرق کو بھی شامل ہے اور ان کو بھی جو اس کی سی بدخصلتوں کے حامل اور ان جیسے برے کاموں کے مرتکب ہوں گے۔
(1) یہ اللہ تعالیٰ کی اس خاص حفاظت ونگرانی کا ذکر ہے جس کا اہتمام انبیاء (عليهم السلام) کے لئے فرمایا ہے جو انبیا پر اللہ کے فضل خاص اور اس کی رحمت خاصہ کا مظہر ہے۔ طائفہ (جماعت) سے مراد وہ لوگ ہیں جو بنو ابیرق کی حمایت میں رسول (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں ان کی صفائی پیش کر رہے تھے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہو چلا تھا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) اس شخص کو چوری کے الزام سے بری کر دیں گے، جو فی الواقع چور تھا۔
(2) یہ دوسرے فضل واحسان کا تذکرہ ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر کتاب وحکمت (سنت) نازل فرما کر اور ضروری باتوں کا علم دے کر فرمایا گیا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ”وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلا الإِيمَانُ“ (الشوریٰ: 52) ”اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف (قرآن لے کر) ایک فرشتہ اپنے حکم سے تو نہیں جانتا تھاکہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟“۔ ”وَمَا كُنْتَ تَرْجُو أَنْ يُلْقَى إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ“ ( القصص:86) ”اور تجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تجھ پر کتاب اتاری جائے گی، مگر تیرے رب کی رحمت سے (یہ کتاب اتاری گئی)“ ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) پر فضل واحسان فرمایا اور کتاب وحکمت بھی عطا فرمائی، ان کے علاوہ دیگر بہت سی باتوں کا آپ (صلى الله عليه وسلم) کو علم دیا گیا جن سے آپ (صلى الله عليه وسلم) بےخبر تھے۔ یہ بھی گویا آپ (صلى الله عليه وسلم) کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ جو خود عالم الغیب ہو، اسے تو کسی اور سے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور جسے دوسرے سے معلومات حاصل ہوں، وحی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے وہ عالم الغیب نہیں ہوتا۔