የቅዱስ ቁርዓን ይዘት ትርጉም - የኡርዱኛ ትርጉም - በመሐመድ ጆናክሬ

የገፅ ቁጥር:close

external-link copy
75 : 4

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا ۚ— وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا ۙۚ— وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًا ۟ؕ

بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راه میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ﻇالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔ info

(1) ظالموں کی بستی سے مراد (نزول کے اعتبار سے) مکہ ہے۔ ہجرت کے بعد وہاں باقی رہ جانے والے مسلمان خاص طور پر بوڑھے مرد، عورتیں اور بچے، کافروں کے ظلم وستم سے تنگ آکراللہ کی بارگاہ میں مدد کی دعا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ تم اس مستضعفین کو کفار سے نجات دلانے کے لئے جہاد کیوں نہیں کرتے؟ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے علما نے کہا کہ جس علاقے میں مسلمان اس طرح ظلم وستم کا شکار اورنرغۂ کفار میں گھرے ہوئے ہوں تو دوسرے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کو کافروں کے ظلم وستم سے بچانے کے لئے جہاد کریں۔ یہ جہاد کی دوسری قسم ہے۔ پہلی قسم ہےإعلاءِ كَلِمَةِ الله اللہ یعنی دین کی نشر واشاعت اور كَلِمَةِ الله کے غلبے کے لئے لڑنا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں اور مابعد کی آیت میں ہے۔

التفاسير:

external-link copy
76 : 4

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۚ— وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْۤا اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِ ۚ— اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا ۟۠

جو لوگ ایمان ﻻئے ہیں وه تو اللہ تعالیٰ کی راه میں جہاد کرتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے، وه اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کی راه میں لڑتے ہیں(1) پس تم شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو! یقین مانو کہ شیطانی حیلہ (بالکل بودا اور) سخت کمزور ہے۔ info

(1) مومن اور کافر، دونوں کو جنگوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن دونوں کے مقاصد جنگ میں عظیم فرق ہے، مومن اللہ کے لئے لڑتا ہے، محض طلب دنیا یا ہوس ملک گیری کی خاطر نہیں۔ جب کہ کافر کا مقصد یہی دنیا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں۔
(2) مومنوں کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ طاغوتی مقاصد کے لئے حیلے اور مکر کمزور ہوتے ہیں، ان کے ظاہری اسباب کی فراوانی اور کثرت تعداد سے مت ڈرو تمہاری ایمانی قوت اور عزم جہاد کے مقابلے میں شیطان کے یہ چیلے نہیں ٹھہر سکتے۔

التفاسير:

external-link copy
77 : 4

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَیْدِیَكُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ۚ— فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَةً ۚ— وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ ۚ— لَوْلَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیْبٍ ؕ— قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ ۚ— وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی ۫— وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا ۟

کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوٰة ادا کرتے رہو۔ پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیاده، اور کہنے لگے اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا؟(1) کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دی؟(2) آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سودمندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا۔ info

(1) مکے میں مسلمان چونکہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے لڑنے کے قابل نہیں تھے۔ اس لئے مسلمانوں کی خواہش کے باوجود انہیں قتال سے روکے رکھا گیا اور دو باتوں کی تاکید کی جاتی رہی، ایک یہ کہ کافروں کے ظالمانہ رویے کو صبر اور حوصلے سے برداشت کریں اور عفو ودرگزر سے کام لیں۔ دوسرے یہ کہ نماز زکواۃ اور دیگر عبادات وتعلیمات پر عمل کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ سے ربط وتعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جائے۔ لیکن ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسلمانوں کی طاقت مجتمع ہوگئی تو پھر انہیں قتال کی اجازت دے دی گئی تو بعض لوگوں نے کمزوری اور پست ہمتی کا اظہار کیا۔ اس پر آیت میں مکی دور کی ان کی آرزو یاد دلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب مسلمان حکم جہاد سن کر خوف زدہ کیوں ہو رہے ہیں جب کہ یہ حکم جہاد خود ان کی اپنی خواہش کے مطابق ہے۔ آیت قران میں تحریف آیت کا پہلا حصہ جس میں ”كَفِّ أَيْدِي“ (لڑائی سے ہاتھ روکے رکھنے) کا حکم ہے۔ اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ نماز میں رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کی حالت میں ہاتھوں کو روکے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی غلط اور واہیات استدلال ہے۔ اس کے لئے ان صاحب نے آیت کے الفاظ بھی تحریف کی اور معنی میں بھی۔ یعنی لفظی اور معنوی دونوں قسم کے تحریف سے کام لیا ہے۔
(2) اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس حکم کو کچھ اور مدت کے لئے موخر کیوں نہ کر دیا یعنی ”أَجَلٍ قَرِيبٍ“ سے مراد موت یا فرض جہاد کی مدت ہے۔ (تفسير ابن كثير)

التفاسير:

external-link copy
78 : 4

اَیْنَمَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ ؕ— وَاِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۚ— وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ ؕ— قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ؕ— فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًا ۟

تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آپکڑے گی، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو(1) ، اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے(2)۔ انہیں کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انہیں کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں۔(3) info

(1) ایسے کمزور مسلمانوں کو سمجھانے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ ایک تو یہ دنیا فانی اور اس کا فائدہ عارضی ہے جس کے لئے تم کچھ مہلت طلب کر رہے ہو۔ اس کے مقابلے میں آخرت بہت بہتر اور پائیدار ہے جس کے اطاعت الٰہی کے صلے میں تم سزا وار ہوگے۔ دوسرے یہ کہ جہاد کرو یا نہ کرو، موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی چاہے تم مضبوط قلعوں میں بند ہو کر بیٹھ جاؤ پھر جہاد سے گریز کا کیا فائدہ؟ مضبوط برجوں سے مراد مضبوط اور بلند وبالا فصیلوں والے قلعے ہیں۔
ملحوظة: یعنی مسلمانوں کا چونکہ یہ خوف بھی طبعی تھا۔ اسی طرح تاخیر کی خواہش بھی بطور اعتراض یا انکار نہ تھی، بلکہ طبعی خوف کا ایک منطقی نتیجہ تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا اور نہایت مضبوط دلائل سے انہیں سہارا اور حوصلہ دیا۔
(2) یہاں سے پھر منافقین کی باتوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ سابقہ امت کے منکرین کی طرح انہوں نے بھی کہا کہ بھلائی (خوشحالی، غلے کی پیداوار، مال واولاد کی فراوانی وغیرہ) اللہ کی طرف سے ہے اور برائی (قحط سالی، مال ودولت میں کمی وغیرہ) اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) تیری طرف سے ہے یعنی تیرے دین اختیار کرنے کے نتیجے میں یہ ابتلا آئی۔ جس طرح حضرت موسیٰ (عليه السلام) اور قوم فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جب ان کو بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں، یہ ہمارے لئے ہے (یعنی ہم اس کے مستحق ہیں) اور جب ان کو کوئی برائی پہنچتی ہے تو حضرت موسیٰ (عليه السلام) اور ان کے پیروکاروں سے بدشگونی پکڑتے ہیں، (یعنی نعوذ باللہ ان کی نحوست کا نتیجہ بتلاتے ہیں) (الاعراف: 131)
(3) یعنی بھلائی اور برائی دونوں اللہ کی طرف سے ہی ہے لیکن یہ لوگ قلت فہم وعلم اور کثرت جہل وظلم کی وجہ سے اس بات کو سمجھ نہیں پاتے۔

التفاسير:

external-link copy
79 : 4

مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ؗ— وَمَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ ؕ— وَاَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ؕ— وَكَفٰی بِاللّٰهِ شَهِیْدًا ۟

تجھے جو بھلائی ملتی ہے وه اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے(1) اور جو برائی پہنچتی ہے وه تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے(2)، ہم نے تجھے تمام لوگوں کو پیغام پہنچانے واﻻ بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواه کافی ہے۔ info

(1) یعنی اس کے فضل وکرم سے ہے یعنی کسی نیکی یا اطاعت کا صلہ نہیں ہے۔ کیونکہ نیکی کی توفیق بھی دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ علاوہ ازیں اس کی نعمتیں اتنی بے پایاں ہیں کہ ایک انسان کی عبادت وطاعت اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی۔ اسی لئے ایک حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: جنت میں جو بھی جائے گا، محض اللہ کی رحمت سے جائے گا (اپنے عمل کی وجہ سے نہیں)، صحابہ (رضي الله عنهم) نے عرض کیا یا رسول اللہ! وَلا أنت؟َ آپ (صلى الله عليه وسلم) بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جائیں گے؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ہاں جب تک اللہ مجھے بھی اپنے دامان رحمت میں نہیں ڈھانک لے گا جنت میں نہیں جاؤں گا۔ (صحيح بخاري، كتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل۔18)
(2) یہ برائی بھی اگرچہ اللہ کی مشیت سے ہی آتی ہے۔ جیسا کہ ”كُلّٞ مِّنۡ عِندِ ٱللَّهِ“ سے واضح ہے لیکن یہ برائی کسی گناہ کی عقوبت یا اس کا بدلہ ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ یہ تمہارے نفس سے ہے یعنی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے۔ جس طرح فرمایا «وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ» (الشورى: 30 ) ”تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے عملوں کا نتیجہ ہے اور بہت سے گناہ تو معاف ہی فرما دیتا ہے»“

التفاسير: