የቅዱስ ቁርዓን ይዘት ትርጉም - የኡርዱኛ ትርጉም - በመሐመድ ጆናክሬ

የገፅ ቁጥር:close

external-link copy
95 : 4

لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ ؕ— فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةً ؕ— وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰی ؕ— وَفَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا ۟ۙ

اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راه میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں(1) ، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعده دیا ہے(2) لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے۔ info

(1) جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں تو حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (رضي الله عنه) (نابینا صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں جس کی وجہ سے ہم جہاد میں حصہ لینے سے مجبور ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ گھر میں بیٹھ رہنے کی وجہ سے جہاد میں حصہ لینے والوں کے برابر ہم اجر وثواب حاصل نہیں کر سکیں گے درآں حالیکہ ہمارا گھر میں بیٹھ رہنا بطور شوق، یا جان کی حفاظت کے نہیں ہے بلکہ عذر شرعی کی وجہ سے ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ”غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ“ ( بغیر عذر کے) کا استثنا نازل فرمایا یعنی عذر کے ساتھ بیٹھ رہنے والے، مجاہدین کے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ”حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ“ ان کو عذر نے روکا ہوا ہے (صحیح بخاری، کتاب الجہاد )
(2) یعنی جان ومال سے جہاد کرنے والوں کو جو فضیلت حاصل ہوگی، جہاد میں حصہ نہ لینے والے اگرچہ اس سے محروم رہیں گے، تاہم اللہ تعالیٰ نے دونوں کے ساتھ ہی بھلائی کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے۔ یعنی اگر بقدر ضرورت آدمی جہاد میں حصہ لے لیں تو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی یہ فرض ادا شدہ سمجھا جائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
96 : 4

دَرَجٰتٍ مِّنْهُ وَمَغْفِرَةً وَّرَحْمَةً ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۟۠

اپنی طرف سے مرتبے کی بھی اور بخشش کی بھی اور رحمت کی بھی اور اللہ تعالیٰ بخشش کرنے واﻻ اور رحم کرنے واﻻ ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
97 : 4

اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِیْمَ كُنْتُمْ ؕ— قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ ؕ— قَالُوْۤا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِیْهَا ؕ— فَاُولٰٓىِٕكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ؕ— وَسَآءَتْ مَصِیْرًا ۟ۙ

جو لوگ اپنی جانوں پر ﻇلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟(1) یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے(2)۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشاده نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وه پہنچنے کی بری جگہ ہے۔ info

(1) یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب وجوار میں مسلمان توہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان چھوڑکر ہجرت کرنے سے گریز کیا۔ جب کہ مسلمانوں کی قوت کا ایک جگہ مجتمع کرنے کے لئے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم مسلمان کو دیا جا چکا تھا۔ اس لئے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا، ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم بتلایا گیا ہے۔ جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات وظروف کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس موقع پر ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دار الکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔
(2) یہاں ارض (جگہ) سے مراد شان نزول کے اعتبار سے مکہ اور اس کا قرب وجوار ہے اور آگے ”ارض اللہ“ سے مراد مدینہ ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی پہلی جگہ سے مراد ارض کفار ہوگی۔ جہاں اسلام پر عمل مشکل ہو اور ارض اللہ سے مراد ہر وہ جگہ ہوگی جہاں انسان اللہ کے دین پر عمل کرنے کی غرض سے ہجرت کرکے جائے۔

التفاسير:

external-link copy
98 : 4

اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَةً وَّلَا یَهْتَدُوْنَ سَبِیْلًا ۟ۙ

مگر جو مرد عورتیں اور بچے بے بس ہیں جنہیں نہ تو کسی چارہٴ کار کی طاقت اور نہ کسی راستے کا علم ہے۔(1) info

(1) یہ ان مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہجرت سے مستثنیٰ کرنے کا حکم ہے جو اس کے وسائل سے محروم اور راستے سے بھی بے خبر تھے۔ بچے اگرچہ شرعی احکام کے مکلف نہیں ہوتے لیکن یہاں ان کا ذکر ہجرت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے کیا گیا ہے کہ بچے تک بھی ہجرت کریں یا پھر یہاں بچوں سے مراد قریب البلوغت بچے ہوں گے۔

التفاسير:

external-link copy
99 : 4

فَاُولٰٓىِٕكَ عَسَی اللّٰهُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْهُمْ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ عَفُوًّا غَفُوْرًا ۟

بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے درگزر کرے، اللہ تعالیٰ درگزر کرنے واﻻ اور معاف فرمانے واﻻ ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
100 : 4

وَمَنْ یُّهَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِیْرًا وَّسَعَةً ؕ— وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَی اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَی اللّٰهِ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۟۠

جو کوئی اللہ کی راه میں وطن کو چھوڑے گا، وه زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی(1) ، اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف نکل کھڑا ہوا، پھر اسے موت نے آ پکڑا تو بھی یقیناً اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ﺛابت ہو گیا(2)، اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے۔ info

(1) اس میں ہجرت کی ترغیب اور مشرکین سے مفارقت اختیار کرنے کی تلقین ہے۔ ”مُرَاغَمًا“ کے معنی جگہ، جائے قیام یا جائے پناہ ہے۔ اور”سَعَةً“ سے رزق یا جگہوں اور ملکوں کی کشادگی وفراخی ہے۔
(2) اس میں نیت کے مطابق اجر وثواب ملنے کی یقین دہانی ہے چاہے موت کی وجہ سے وہ اس عمل کے مکمل کرنے سے قاصر رہا ہو۔ جیسا کہ گزشتہ امتوں میں سے ایک سو افراد کے قاتل کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ جو توبہ کے لئے نیکوں کی ایک بستی میں جا رہا تھا کہ راستے میں موت آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے نیکوں کی بستی کو، بہ نسبت دوسری بستی کے قریب تر کر دیا جس کی وجہ سے اسے ملائکہ رحمت اپنے ساتھ لے گئے۔ (صحيح بخاري، كتاب الأنبياء، باب ما ذكر عن بني إسرائيل نمبر 54 ومسلم كتاب التوبة، باب قبول توبة القاتل وإن كثر قتله) اسی طرح جو شخص ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلے لیکن راستے میں ہی اسے موت آجائے تو اسے اللہ کی طرف سے ہجرت کا ثواب ضرور ملے گا، گو ابھی وہ ہجرت کے عمل کو پایہ تکمیل تک بھی نہ پہنچا سکا ہو۔ جیسے حدیث میں بھی ہے۔ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ“ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے، ”وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى“ آدمی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی، جس نے اللہ اور اس کے رسول (صلى الله عليه وسلم) کے لئے ہجرت کی پس، اس کی ہجرت اسی کے لئے ہے اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کی نیت سے ہجرت کی پس اس کی ہجرت اسی کے لئے ہے جس نیت سے اس نے ہجرت کی۔ (صحيح بخاري، باب بدء الوحي ومسلم، كتاب الإمارة) یہ حکم عام ہے جو دین کے ہر کام کو شامل ہے۔ یعنی اس کو کرتے وقت اللہ کی رضا پیش نظر ہوگی تو وہ مقبول، ورنہ مردود ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
101 : 4

وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ۖۗ— اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ؕ— اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا ۟

جب تم سفر میں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناه نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے(1) ، یقیناً کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں۔ info

(1) اس میں حالت سفرمیں نماز قصر کرنے (دوگانہ ادا کرنے) کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ”إِنْ خِفْتُمْ“ (اگر تمہیں ڈر ہو) غالب احوال کے اعتبار سے ہے۔ کیونکہ اس وقت پورا عرب دارالحرب بنا ہوا تھا۔ کسی طرف کا بھی سفر خطرات سے خالی نہیں تھا۔ یعنی یہ شرط نہیں ہے کہ سفر میں خوف ہو تو قصر کی اجازت ہے۔ جیسے قرآن مجید میں اور بھی بعض مقامات پر اس قسم کی قیدیں بیان کی گئی ہیں جو اتفاقی یعنی غالب احوال کے اعتبار سے مثلاً: ”لا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً“ ( آل عمران: 130)، ”وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا“ ( النور: 33) ”تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ اس سے بچنا چاہیں“۔ چونکہ بچنا چاہتی تھیں، اس لئے اللہ نے اسے بیان فرما دیا۔ یہ نہیں کہ اگر بدکاری پر آمادہ ہوں تو پھر تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ تم ان سے بدکاری کروا لیا کرو ”وَرَبَائِبُكُمُ اللاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ“ (النسا: 23) ٰوَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ۔ بعض صحابہ (رضي الله عنهم) کے ذہن میں بھی یہ اشکال آیا کہ اب تو امن ہے، ہمیں سفر میں نماز قصر نہیں کرنی چاہئے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لئے صدقہ ہے، اس کے صدقے کو قبول کرو۔ (مسند احمد جلد 1، ص 25،36، وصحیح مسلم، کتاب المسافرین اور دیگر کتب حدیث )
ملحوظة: سفر کی مسافت اور ایام قصر کی تعیین میں کافی اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے فرسخ یعنی ( کوس) والی روایت کو ترجیح دی ہے۔ (نیل الاوطار جلد 3 صفحہ220) اسی طرح بہت سے محققین علماء اس بات کو ضروری قرار دیتے ہیں کہ دوران سفر کسی ایک مقام پر تین یا چار دن سے زیادہ قیام کی نیت نہ ہو، اور اگر اس سے زیادہ قیام کی نیت ہو تو پھر قصر کی اجازت نہیں (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مرعاۃ المفاتیح )

التفاسير: