(1) یعنی کیا حلال ہے اور کیا حرام؟ یا طاعات کیا ہیں اور معاصی کیا؟ یا ثواب والے کام کون سے ہیں اور عقاب والےکون سے؟
(2) یہ حال ہے یعنی اس کے الفاظ عربی ہیں، جن کےمعانی مفصل اور واضح ہیں۔
(3) یعنی جو عربی زبان، اس کے معانی و مفاہیم اور اس کے اسرار واسلوب کو جانتی ہے۔
(1) ایمان اور اعمال صالحہ کے حاملین کو کامیابی اور جنت کی خوش خبری سنانے والا اورمشرکین و مکذبین کو عذاب نار سے ڈرانے والا۔
(2) یعنی غوروفکر اور تدبر و تعقل کی نیت سے نہیں سنتے کہ جس سے انہیں فائدہ ہو۔ اسی لیے ان کی اکثریت ہدایت سے محروم ہے۔
(1) أَكِنَّةً، كِنَانٌ کی جمع ہے۔ پردہ۔ یعنی ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں کہ ہم تیری توحید وایمان کی دعوت کو سمجھ سکیں۔
(2) وَقْرٌ کے اصل معنی بوجھ کےہیں، یہاں مراد بہرا پن ہے، جو حق کے سننے میں مانع تھا۔
(3) یعنی ہمارے اور تیرے درمیان ایسا پردہ حائل ہے کہ تو جو کہتا ہے، وہ سن نہیں سکتے اور جوکرتا ہے اسے دیکھ نہیں سکتے۔ اس لیے تو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے اور ہم تجھے تیرےحال پر چھوڑ دیں، توہمارے دین پر عمل نہیں کرتا، ہم تیرے دین پر عمل نہیں کر سکتے۔
(1) یعنی میرے اور تمہارے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے۔ بجز وحی الٰہی کے پھر یہ بعد و حجاب کیوں؟ علاوہ ازیں میں جو دعوت توحید پیش کر رہاہوں، وہ بھی ایسی نہیں کہ عقل و فہم میں نہ آ سکے، پھر اس سے اعراض کیوں؟
(1) یہ سورت مکی ہے۔ زکوٰۃ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئی۔ اس لیے اس سے مراد یاتو صدقات ہیں جس کا حکم مسلمانوں کو مکے میں بھی دیا جاتا رہا، جس طرح پہلے صرف صبح و شام کی نماز کا حکم تھا، پھرہجرت سے ڈیڑھ سال قبل لیلہ الاسراء کو پانچ فرض نمازوں کاحکم ہوا۔ یا پھر زکوٰۃ سے یہاں مراد کلمۂ شہادت ہے، جس سے نفس انسانی شرک کی آلودگیوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ (ابن کثیر)
(1) قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نےآسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا یہاں اس کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے۔ فرمایا، زمین کو دو دن میں بنایا۔ اس سے مراد ہیں۔ يَوْمُ الأَحَدِ (اتوار) اور يَوْمُ الاثْنَيْنِ (پیر) سورۂ نازعات میں کہا گیا ہے وَالأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بنایا گیا ہے جب کہ یہاں زمین کی تخلیق کاذکر آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) ما نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہےکہ تخلیق اور چیز ہے دحی جو اصل میں دحو ہے (بچھانا یا پھیلانا) اور چیز۔ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلےہوئی، جیساکہ یہاں بھی بیان کیا گیا ہے اور دَحْوٌ کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کے قابل بنانےکےلیے اس میں پانی کے ذخائر رکھے گئے، اسے پیداواری ضروریات کا مخزن بنایا گیا۔ أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا اس میں پہاڑ، ٹیلے اور جمادات رکھے گئے۔ یہ عمل آسمان کی تخلیق کے بعد دوسرے دنوں میں کیا گیا۔ یوں زمین اور اس کے متعلقات کی تخلیق پورے چار دنوں میں مکمل ہوئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ حم السجدۃ)۔
(1) یعنی پہاڑوں کو زمین میں سےہی پیدا کر کے ان کواس کے اوپر گاڑ دیا تاکہ زمین ادھر یا ادھر نہ ڈولے۔
(2) یہ اشارہ ہے پانی کی کثرت، انواع و اقسام کے رزق، معدنیات اوردیگراسی قسم کی اشیا کی طرف یہ زمین کی برکت ہے، کثرت خیر کا نام ہی برکت ہے۔
(3) أَقْوَاتٌ ، قُوتٌ (غذا، خوراک) کی جمع ہے یعنی زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کی خوراک اس میں مقدر کر دی ہے یا بند وبست کر دیا ہے۔ اور رب کی اس تقدیر یا بند وبست کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی زبان اسے بیان نہیں کرسکتی، کوئی قلم اسے رقم نہیں کر سکتا اور کوئی کیلکولیٹر اسےگن نہیں سکتا۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہر زمین کے دوسرے حصوں میں پیدا نہیں ہو سکتیں۔ تاکہ ہر علاقے کی یہ یہ مخصوص پیداواران ان علاقوں کی تجارت و معیشت کی بنیادیں بن جائیں۔ چنانچہ یہ مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح اوربالکل حقیقت ہے۔
(4) یعنی تخلیق کے پہلے دو دن اوروحی کے دو دن سارے دن ملاکے یہ کل چار دن ہوئے، جن میں یہ سارا عمل تکمیل کو پہنچا۔
(5) سَوَاءً کا مطلب ہے، ٹھیک چار دن میں۔ یعنی پوچھنے والوں کو بتلا دو کہ تخلیق اور دَحْوٌ کایہ عمل ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یا پورا یا برابر جواب ہے سائلین کے لیے۔
(1) یہ آنا کس طرح تھا؟ اس کی کیفیت نہیں بیان کی جاسکتی۔ یہ دونوں اللہ کےپاس آئے جس طرح اس نےچاہا۔ بعض نے اس کا مفہوم لیا ہے کہ میرے حکم کا اطاعت کرو، انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم حاضرہیں۔ چنانچہ اللہ نے آسمان کو حکم دیا، سورج، چاند اور ستارے نکال اور زمین کو کہا، نہریں جاری کردے اور پھل نکال دے (ابن کثیر) یا مفہوم ہے کہ تم دونوں وجود میں آجاؤ۔