Terjemahan makna Alquran Alkarim - Terjemahan Berbahasa Urdu - Muhammad Jonakri

فُصّلت

external-link copy
1 : 41

حٰمٓ ۟ۚ

حٰم. info
التفاسير:

external-link copy
2 : 41

تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۟ۚ

اتاری ہوئی ہے بڑے مہربان بہت رحم والے کی طرف سے.(1) info
التفاسير:

external-link copy
3 : 41

كِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰیٰتُهٗ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۟ۙ

(ایسی) کتاب ہے جس کی آیتوں کی واضح تفصیل کی گئی ہے(1) ، (اس حال میں کہ) قرآن عربی زبان میں ہے(2) اس قوم کے لیے جو جانتی ہے.(3) info

(1) یعنی کیا حلال ہے اور کیا حرام؟ یا طاعات کیا ہیں اور معاصی کیا؟ یا ثواب والے کام کون سے ہیں اور عقاب والےکون سے؟
(2) یہ حال ہے یعنی اس کے الفاظ عربی ہیں، جن کےمعانی مفصل اور واضح ہیں۔
(3) یعنی جو عربی زبان، اس کے معانی و مفاہیم اور اس کے اسرار واسلوب کو جانتی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 41

بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ۚ— فَاَعْرَضَ اَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ ۟

خوش خبری سنانے واﻻ اور ڈرانے واﻻ(1) ہے، پھر بھی ان کی اکثریت نے منھ پھیر لیا اور وه سنتے ہی نہیں.(2) info

(1) ایمان اور اعمال صالحہ کے حاملین کو کامیابی اور جنت کی خوش خبری سنانے والا اورمشرکین و مکذبین کو عذاب نار سے ڈرانے والا۔
(2) یعنی غوروفکر اور تدبر و تعقل کی نیت سے نہیں سنتے کہ جس سے انہیں فائدہ ہو۔ اسی لیے ان کی اکثریت ہدایت سے محروم ہے۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 41

وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْۤ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ وَفِیْۤ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْ بَیْنِنَا وَبَیْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ ۟

اور انہوں نے کہا کہ تو جس کی طرف ہمیں بلا رہا ہے ہمارے دل تو اس سے پردے میں ہیں(1) اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے(2) اور ہم میں اور تجھ میں ایک حجاب ہے، اچھا تو اب اپنا کام کیے جا ہم بھی یقیناً کام کرنے والے ہیں.(3) info

(1) أَكِنَّةً، كِنَانٌ کی جمع ہے۔ پردہ۔ یعنی ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں کہ ہم تیری توحید وایمان کی دعوت کو سمجھ سکیں۔
(2) وَقْرٌ کے اصل معنی بوجھ کےہیں، یہاں مراد بہرا پن ہے، جو حق کے سننے میں مانع تھا۔
(3) یعنی ہمارے اور تیرے درمیان ایسا پردہ حائل ہے کہ تو جو کہتا ہے، وہ سن نہیں سکتے اور جوکرتا ہے اسے دیکھ نہیں سکتے۔ اس لیے تو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے اور ہم تجھے تیرےحال پر چھوڑ دیں، توہمارے دین پر عمل نہیں کرتا، ہم تیرے دین پر عمل نہیں کر سکتے۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 41

قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْۤا اِلَیْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُ ؕ— وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِكِیْنَ ۟ۙ

آپ کہہ دیجیئے! کہ میں تو تم ہی جیسا انسان ہوں مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے(1) سو تم اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو، اور ان مشرکوں کے لیے (بڑی ہی) خرابی ہے. info

(1) یعنی میرے اور تمہارے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے۔ بجز وحی الٰہی کے پھر یہ بعد و حجاب کیوں؟ علاوہ ازیں میں جو دعوت توحید پیش کر رہاہوں، وہ بھی ایسی نہیں کہ عقل و فہم میں نہ آ سکے، پھر اس سے اعراض کیوں؟

التفاسير:

external-link copy
7 : 41

الَّذِیْنَ لَا یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ ۟

جو زکوٰة نہیں دیتے(1) اورآخرت کے بھی منکر ہی رہتے ہیں. info

(1) یہ سورت مکی ہے۔ زکوٰۃ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئی۔ اس لیے اس سے مراد یاتو صدقات ہیں جس کا حکم مسلمانوں کو مکے میں بھی دیا جاتا رہا، جس طرح پہلے صرف صبح و شام کی نماز کا حکم تھا، پھرہجرت سے ڈیڑھ سال قبل لیلہ الاسراء کو پانچ فرض نمازوں کاحکم ہوا۔ یا پھر زکوٰۃ سے یہاں مراد کلمۂ شہادت ہے، جس سے نفس انسانی شرک کی آلودگیوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ (ابن کثیر)

التفاسير:

external-link copy
8 : 41

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ ۟۠

بیشک جو لوگ ایمان ﻻئیں اور بھلے کام کریں ان کے لیے نہ ختم ہونے واﻻ اجر ہے.(1) info

(1) أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ کاوہی مطلب ہے جو عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ (هود: 108) کا ہے یعنی یہ نہ ختم ہونے والا اجر۔

التفاسير:

external-link copy
9 : 41

قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗۤ اَنْدَادًا ؕ— ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ۟ۚ

آپ کہہ دیجئے! کہ کیا تم اس (اللہ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کردی(1) ، سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے. info

(1) قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نےآسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا یہاں اس کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے۔ فرمایا، زمین کو دو دن میں بنایا۔ اس سے مراد ہیں۔ يَوْمُ الأَحَدِ (اتوار) اور يَوْمُ الاثْنَيْنِ (پیر) سورۂ نازعات میں کہا گیا ہے وَالأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بنایا گیا ہے جب کہ یہاں زمین کی تخلیق کاذکر آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) ما نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہےکہ تخلیق اور چیز ہے دحی جو اصل میں دحو ہے (بچھانا یا پھیلانا) اور چیز۔ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلےہوئی، جیساکہ یہاں بھی بیان کیا گیا ہے اور دَحْوٌ کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کے قابل بنانےکےلیے اس میں پانی کے ذخائر رکھے گئے، اسے پیداواری ضروریات کا مخزن بنایا گیا۔ أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا اس میں پہاڑ، ٹیلے اور جمادات رکھے گئے۔ یہ عمل آسمان کی تخلیق کے بعد دوسرے دنوں میں کیا گیا۔ یوں زمین اور اس کے متعلقات کی تخلیق پورے چار دنوں میں مکمل ہوئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ حم السجدۃ)۔

التفاسير:

external-link copy
10 : 41

وَجَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِیْهَا وَقَدَّرَ فِیْهَاۤ اَقْوَاتَهَا فِیْۤ اَرْبَعَةِ اَیَّامٍ ؕ— سَوَآءً لِّلسَّآىِٕلِیْنَ ۟

اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیے(1) اوراس میں برکت رکھ دی(2) اوراس میں (رہنے والوں کی) غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی(3) (صرف) چار دن میں(4)، ضرورت مندوں کے لیے یکساں طور پر.(5) info

(1) یعنی پہاڑوں کو زمین میں سےہی پیدا کر کے ان کواس کے اوپر گاڑ دیا تاکہ زمین ادھر یا ادھر نہ ڈولے۔
(2) یہ اشارہ ہے پانی کی کثرت، انواع و اقسام کے رزق، معدنیات اوردیگراسی قسم کی اشیا کی طرف یہ زمین کی برکت ہے، کثرت خیر کا نام ہی برکت ہے۔
(3) أَقْوَاتٌ ، قُوتٌ (غذا، خوراک) کی جمع ہے یعنی زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کی خوراک اس میں مقدر کر دی ہے یا بند وبست کر دیا ہے۔ اور رب کی اس تقدیر یا بند وبست کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی زبان اسے بیان نہیں کرسکتی، کوئی قلم اسے رقم نہیں کر سکتا اور کوئی کیلکولیٹر اسےگن نہیں سکتا۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہر زمین کے دوسرے حصوں میں پیدا نہیں ہو سکتیں۔ تاکہ ہر علاقے کی یہ یہ مخصوص پیداواران ان علاقوں کی تجارت و معیشت کی بنیادیں بن جائیں۔ چنانچہ یہ مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح اوربالکل حقیقت ہے۔
(4) یعنی تخلیق کے پہلے دو دن اوروحی کے دو دن سارے دن ملاکے یہ کل چار دن ہوئے، جن میں یہ سارا عمل تکمیل کو پہنچا۔
(5) سَوَاءً کا مطلب ہے، ٹھیک چار دن میں۔ یعنی پوچھنے والوں کو بتلا دو کہ تخلیق اور دَحْوٌ کایہ عمل ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یا پورا یا برابر جواب ہے سائلین کے لیے۔

التفاسير:

external-link copy
11 : 41

ثُمَّ اسْتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَهِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا ؕ— قَالَتَاۤ اَتَیْنَا طَآىِٕعِیْنَ ۟

پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وه دھواں (سا) تھا پس اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے(1) دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں. info

(1) یہ آنا کس طرح تھا؟ اس کی کیفیت نہیں بیان کی جاسکتی۔ یہ دونوں اللہ کےپاس آئے جس طرح اس نےچاہا۔ بعض نے اس کا مفہوم لیا ہے کہ میرے حکم کا اطاعت کرو، انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم حاضرہیں۔ چنانچہ اللہ نے آسمان کو حکم دیا، سورج، چاند اور ستارے نکال اور زمین کو کہا، نہریں جاری کردے اور پھل نکال دے (ابن کثیر) یا مفہوم ہے کہ تم دونوں وجود میں آجاؤ۔

التفاسير: