قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی

صفحہ نمبر:close

external-link copy
133 : 3

وَسَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۙ— اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ ۟ۙ

اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو(1) جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے. info

(1) مال ودولت دنیا کے پیچھے لگ کر آخرت تباہ کرنے کے بجائے، اللہ ورسول کی اطاعت کا اوراللہ کی مغفرت اور اس کی جنت کا راستہ اختیار کرو۔ جو متقین کے لئے اللہ نے تیار کی ہے۔ چنانچہ آگے متقین کی چند خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
134 : 3

الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ؕ— وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۟ۚ

جو لوگ آسانی میں سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں(1) ، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں(2)، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے. info

(1) یعنی محض خوش حالی میں ہی نہیں، تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر حال اور ہر موقعے پر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
(2) یعنی جب غصہ انہیں بھڑکاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں یعنی اس پر عمل نہیں کرتے اور ان کو معاف کر دیتے ہیں جو ان کے ساتھ برائی کرتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
135 : 3

وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫— وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۪۫— وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَهُمْ یَعْلَمُوْنَ ۟

جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناه کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں(1) ، فیالواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وه لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے. info

(1) یعنی جب ان سے بہ تقاضائے بشریت کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو فوراً توبہ واستغفار کا اہتمام کرتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
136 : 3

اُولٰٓىِٕكَ جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَجَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ؕ— وَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ ۟ؕ

انہیں کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وه ہمیشہ رہیں گے، ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا ﺛواب کیا ہی اچھا ہے. info
التفاسير:

external-link copy
137 : 3

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ ۙ— فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ ۟

تم سے پہلے بھی ایسے واقعات گزر چکے ہیں، سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ (آسمانی تعلیم کے) جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا؟(1) info

(1) جنگ احد میں مسلمانوں کا لشکر سات سو افراد پر مشتمل تھا، جس میں سے تیر اندازوں کا ایک دستہ آپ نے عبداللہ ابن جبیر (رضي الله عنه) کی قیادت میں ایک پہاڑی پر مقرر فرما دیا اور انہیں تاکید کر دی کہ چاہے ہمیں فتح ہو یا شکست، تم یہاں سے نہ ہلنا اور تمہارا کام یہ ہے کہ جو گھڑ سوار تمہاری طرف آئے تیروں سے اسے پیچھے دھکیل دینا۔ لیکن جب مسلمان فتح یاب ہوگئے اور مال واسباب سمیٹنے لگے تو اس دستے میں اختلاف ہوگیا۔ کچھ کہنے لگے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے فرمان کا مقصد تو یہ تھا کہ جب تک جنگ جاری رہے یہیں جمے رہنا، لیکن جب یہ جنگ ختم ہوگئی ہے اور کفار بھاگ رہے ہیں تو یہاں رہنا ضروری نہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی وہاں سے ہٹ کر مال واسباب جمع کرنا شروع کر دیا اور وہاں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے فرمان کی اطاعت میں صرف دس آدمی باقی رہ گئے۔ جس سے کافروں نے فائدہ اٹھایا اور ان کے گھڑ سوار پلٹ کر وہیں سے مسلمانوں کے عقب میں جا پہنچے اور ان پر اچانک حملہ کر دیا جس سے مسلمانوں میں افراتفری مچ گئی اور وہ غیر متوقع حملے سے سخت سراسیمہ ہوگئے جس سے مسلمانوں کو قدرتی طور پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تسلی دے رہا ہے کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ تاہم بالآخر تباہی وبربادی اللہ ورسول کی تکذیب کرنے والوں کا ہی مقدر بنی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
138 : 3

هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًی وَّمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ ۟

عام لوگوں کے لئے تو یہ (قرآن) بیان ہے اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ونصیحت ہے. info
التفاسير:

external-link copy
139 : 3

وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۟

تم نہ سستی کرو اور غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم ایماندار ہو.(1) info

(1) گزشتہ جنگ میں تمہیں جو نقصان پہنچا ہے، اس سے نہ سست ہو اور نہ اس پر غم کھاؤ کیونکہ تمہارے اندر ایمانی قوت موجود رہی تو غالب وکامران تم ہی رہو گے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی قوت کا اصل راز اور ان کی کامیابی کی بنیاد واضح کر دی ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ اس کے بعد مسلمان ہر معرکے میں سرخرو ہی رہے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
140 : 3

اِنْ یَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ ؕ— وَتِلْكَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُهَا بَیْنَ النَّاسِ ۚ— وَلِیَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَ ؕ— وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ ۟ۙ

اگر تم زخمی ہوئے ہو تو تمہارے مخالف لوگ بھی تو ایسے ہی زخمی ہو چکے ہیں، ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں(1) ۔ (شکست احد) اس لئے تھی کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ﻇاہر کردے اور تم میں سے بعض کو شہادت کا درجہ عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ ﻇالموں سے محبت نہیں کرتا. info

(1) ایک اور انداز سے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر جنگ احد میں تمہارے کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں تو کیا ہوا ؟ تمہارے مخالف بھی تو (جنگ بدر میں) اور احد کی ابتدا میں اسی طرح زخمی ہو چکے ہیں اور اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ فتح وشکست کے ایام کو ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ کبھی غالب کو مغلوب اور کبھی مغلوب کو غالب کر دیتا ہے۔

التفاسير: