قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی

صفحہ نمبر:close

external-link copy
122 : 3

اِذْ هَمَّتْ طَّآىِٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا ۙ— وَاللّٰهُ وَلِیُّهُمَا ؕ— وَعَلَی اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۟

جب تمہاری دو جماعتیں پست ہمتی کا اراده کر چکی تھیں(1) ، اللہ تعالیٰ انکا ولی اور مددگار ہے(2)۔ اور اسی کی پاک ذات پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے. info

(1) یہ اوس اورخزرج کے دو قبیلے (بنو حارثہ اوربنوسلمہ) تھے۔
(2) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے ان کی مدد کی اور ان کی کمزوری کو دور فرما کر ان کی ہمت باندھ دی۔

التفاسير:

external-link copy
123 : 3

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ۚ— فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۟

جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت تمہاری مدد فرمائی تھی جب کہ تم نہایت گری ہوئی حالت میں تھے(1) ، اس لئے اللہ ہی سے ڈرو! (نہ کسی اور سے) تاکہ تمہیں شکر گزاری کی توفیق ہو. info

(1) بہ اعتبار قلت تعداد اور قلت سامان کے، کیونکہ جنگ بدر میں مسلمان تھے اور یہ بھی بے سروسامان۔ صرف دوگھوڑے اورستر اونٹ تھے،باقی سب پیدل تھے۔ (ابن کثیر )

التفاسير:

external-link copy
124 : 3

اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّكْفِیَكُمْ اَنْ یُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُنْزَلِیْنَ ۟ؕ

(اور یہ شکر گزاری باعﺚ نصرت وامداد ہو) جب آپ مومنوں کو تسلی دے رہے تھے، کیا آسمان سے تین ہزار فرشتے اتار کر اللہ تعالیٰ کا تمہاری مدد کرنا تمہیں کافی نہ ہوگا. info
التفاسير:

external-link copy
125 : 3

بَلٰۤی ۙ— اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰذَا یُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُسَوِّمِیْنَ ۟

کیوں نہیں، بلکہ اگر تم صبر و پرہیزگاری کرو اور یہ لوگ اسی دم تمہارے پاس آجائیں تو تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا(1) جو نشاندار ہوں گے.(2) info

(1) مسلمان بدر کی جانب محض قافلہ قریش سے جو تقریباً نہتا تھاچھاپہ مارنے نکلے تھے۔ مگر بدر پہنچتے پہنچتے معلوم ہوا کہ مکہ سے مشرکین کا ایک لشکرجرار پورے غیظ وغضب اور جوش وخروش کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ یہ سن کر مسلمانوں کی صف میں گھبراہٹ، تشویش اور جوش قتال کا ملا جلا رد عمل ہوا اور انہوں نے رب تعالیٰ سے دعا وفریاد کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک ہزار پھر تین ہزار فرشتے اتارنے کی بشارت دی اور مزید وعدہ کیا کہ اگر تم صبرو تقویٰ پر قائم رہے اور مشرکین اسی حالت غیظ وغضب میں آدھمکے تو فرشتوں کی یہ تعداد پانچ ہزار کردی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ مشرکین کا جوش وغضب برقرار نہ رہ سکا۔ (بدر پہنچنے سے پہلے ہی ان میں پھوٹ پڑ گئی۔ ایک گروہ مکہ پلٹ گیا اور باقی جو بدر آئے ان میں سے اکثر سرداروں کی رائے تھی کہ لڑائی نہ کی جائے) اس لئے حسب بشارت تین ہزار فرشتے اتارے گئے اور پانچ ہزار کی تعداد پوری کرنے کی ضرورت پیش نہ آسکی اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ تعداد پوری کی گئی۔
(2) یعنی پہچان کے لئے ان کی مخصوص علامت ہوگی۔

التفاسير:

external-link copy
126 : 3

وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰی لَكُمْ وَلِتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ ؕ— وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ ۟ۙ

اور یہ تو محض تمہارے دل کی خوشی اور اطمینان قلب کے لئے ہے، ورنہ مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں واﻻ ہے. info
التفاسير:

external-link copy
127 : 3

لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْ یَكْبِتَهُمْ فَیَنْقَلِبُوْا خَآىِٕبِیْنَ ۟

(اس امداد الٰہی کا مقصد یہ تھا کہ اللہ) کافروں کی ایک جماعت کو کاٹ دے یا انہیں ذلیل کر ڈالے اور (سارے کے سارے) نامراد ہو کر واپس چلے جائیں.(1) info

(1) یہ اللہ غالب وکار فرما کی مدد کا نتیجہ بتلایا جا رہا ہے۔ سورۂ انفال میں فرشتوں کی تعداد ایک ہزار بتلائی گئی ہے - «إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ»( الانفال: 9) ”جب تم اپنے رب سے مدد طلب کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سنتے ہوئے کہا کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا“، ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے واقعتاً ایک ہزار ہی نازل ہوئے اور مسلمانوں کے حوصلے اور تسلی کے لئے تین ہزار کا اور پھر پانچ ہزار کا مزید مشروط وعدہ کیا گیا۔ پھر حسب حالات مسلمانوں کی تسلی کے نقطہ نظر سے بھی ان کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ اس لئے بعض مفسرین کے نزدیک یہ تین ہزار پانچ ہزار فرشتوں کا نزول نہیں ہوا کیونکہ مقصد تو مسلمانوں کے حوصلوں میں اضافہ کرنا تھا، ورنہ اصل مددگار تو اللہ تعالیٰ ہی تھا اور وہ اپنی مدد کے لئے فرشتوں کا یا کسی اور کامحتاج ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں مسلمانوں کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی، کفر کی طاقت کمزور ہوئی اور کافروں کا گھمند خاک میں مل گیا۔ (ایسر التفاسیر)

التفاسير:

external-link copy
128 : 3

لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ ۟

اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں(1) ، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے(2) یا عذاب دے، کیونکہ وه ﻇالم ہیں. info

(1) یعنی ان کافروں کو ہدایت دینا یا ان کے معاملے میں کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ جنگ احد میں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے دندان مبارک بھی شہید ہوگئے اور چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”وہ قوم کس طرح فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کو زخمی کر دیا“، گویا آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ان کی ہدایت سے ناامیدی ظاہر فرمائی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اسی طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے بعض کفار کے لئے قنوت نازلہ کا بھی اہتمام فرمایا جس میں ان کے لئے بددعا فرمائی جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی،چنانچہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے بددعا کا سلسلہ بند فرما دیا۔ (ابن کثیر وفتح القدیر) اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہیئے جو نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو مختار کل قراردیتے ہیں کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کو تو اتنا اختیار بھی نہ تھا کہ کسی کو راہ راست پر لگا دیں حالانکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) اسی راستے کی طرف بلانے کے لئے بھیجے گئے تھے۔
(2) یہ قبیلےجن کے لئے بددعا فرماتے رہے اللہ کی توفیق سے سب مسلمان ہوگئے۔ جن سے معلوم ہوا کہ مختار کل اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
129 : 3

وَلِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ؕ— یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ؕ— وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟۠

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے، وه جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے واﻻ مہربان ہے. info
التفاسير:

external-link copy
130 : 3

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۪— وَّاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۟ۚ

اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ(1) ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تمہیں نجات ملے. info

(1) چونکہ غزوہ احد میں ناکامی رسول (صلى الله عليه وسلم) کی نافرمانی اور مال دنیا کے لالچ کے سبب ہوئی تھی اس لئے اب طمع دنیا کی سب سے زیادہ بھیانک اور مستقل شکل سود سے منع کیا جا رہا ہے اور اطاعت کیشی کی تاکید کی جا رہی ہےاور بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤکا یہ مطلب نہیں بڑھا چڑھا کر نہ ہو تو مطلق سود جائز ہے۔ بلکہ سود کم ہو یا زیادہ مفرد ہو یا مرکب، مطلقاً حرام ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ یہ قید نہی (حرمت) کے لئے بطور شرط نہیں ہے بلکہ واقعے کی رعایت کے طور پر یعنی سود کی اس وقت جو صورتحال تھی، اس کا بیان واظہار ہے۔ زمانہ جاہلیت میں سود کا یہ رواج عام تھا کہ جب ادائیگی کی مدت آجاتی اور ادائیگی ممکن نہ ہوتی تو مزید مدت میں اضافے کے ساتھ سود میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا جس کی وجہ سے تھوڑی سی رقم بڑھ چڑھ کر کہیں پہنچ جاتی اور ایک عام آدمی کے لئے اس کی ادائیگی ناممکن ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے درو اور اس آگ سے درو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے جس سے تنبیہ بھی مقصود ہے کہ سود خوری سے باز نہ آئے تو یہ فعل حرام تمہیں کفر تک پہنچا سکتاہے،کیونکہ یہ اللہ ورسول سے محاربہ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
131 : 3

وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْۤ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ ۟ۚ

اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے. info
التفاسير:

external-link copy
132 : 3

وَاَطِیْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۟ۚ

اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے. info
التفاسير: