قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی

صفحہ نمبر:close

external-link copy
92 : 3

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ؕ۬— وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ ۟

جب تک تم اپنی پسندیده چیز سے اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ نہ کروگے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے(1) ، اور تم جو خرچ کرو اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے.(2) info

(1) بر (نیکی بھلائی) سے مراد یہاں عمل صالح یا جنت ہے (فتح القدیر) حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابو طلحہ انصاری (رضي الله عنه) جو مدینہ میں اصحاب حیثیت میں سے تھے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ! بیرحا باغ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اسے اللہ کی رضا کے لئے صدقہ کرتا ہوں۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا وہ تو بہت نفع بخش مال ہے، میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ چنانچہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے مشورے سے انہوں نے اسے اپنے اقارب اور عم زادوں میں تقسیم کر دیا (مسند أحمد) اسی طرح اور بھی متعدد صحابہ نے اپنی پسندیدہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کیں۔مِمَّا تُحِبُّونَ میں مِنْ تَبْعِيض کے لئے ہے یعنی ساری پسندیدہ چیزیں خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ بلکہ پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ۔ اس لئے کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ اچھی چیز صدقہ کی جائے۔ یہ افضل اور اکمل درجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمتر چیز یا اپنی ضرورت سے زائد فالتو چیز یا استعمال شدہ پرانی چیز کا صدقہ نہیں کیا جا سکتا یا اس کا اجر نہیں ملے گا۔
(2) تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اچھی یا بری چیز، اللہ اسے جانتا ہے، اس کے مطابق جزا سے نوازے گا۔

التفاسير:

external-link copy
93 : 3

كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَآءِیْلُ عَلٰی نَفْسِهٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ ؕ— قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۟

توراة کے نزول سے پہلے (حضرت) یعقوب (علیہ السلام) نے جس چیز کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا اس کے سوا تمام کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے، آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو توراة لے آو اور پڑھ کر سناؤ.(1) info

(1) یہ اور مابعد کی دو آیتیں یہود کے اس اعتراض پر نازل ہوئیں کہ انہوں نے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سے کہا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) دین ابراہیمی کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اونٹ کا گوشت بھی کھاتے ہیں جب کہ اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ دین ابراہیمی میں حرام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہود کا دعویٰ غلط ہے۔ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے دین میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں۔ ہاں البتہ بعض چیزیں اسرائیل (حضرت یعقوب (عليه السلام) ) نے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں اور وہ یہی اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ تھا (اس کی ایک وجہ نذر یا بیماری تھی) اور حضرت یعقوب (عليه السلام) کا یہ فعل بھی نزول تورات سے پہلے کا ہے، اس لئے کہ تورات تو حضرت ابراہیم (عليه السلام) وحضرت یعقوب (عليه السلام) کے بہت بعد نازل ہوئی ہے۔ پھر تم کس طرح مذکورہ دعویٰ کر سکتے ہو؟ علاوہ ازیں تورات میں بعض چیزیں تم (یہودیوں) پر تمہارے ظلم اور سرکشی کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں۔ (سورة الأنعام: 46، النساء: 160) اگر تمہیں یقین نہیں تو تورات لاؤ اور اسے پڑھ کر سناؤ جس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے زمانے میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں اور تم پر بھی بعض چیزیں حرام کی گئیں تو اس کی وجہ تمہاری ظلم وزیادتی تھی یعنی ان کی حرمت بطور سزا تھی۔ (أيسر التفاسير)

التفاسير:

external-link copy
94 : 3

فَمَنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰهِ الْكَذِبَ مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۟ؔ

اس کے بعد بھی جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھیں وہی ﻇالم ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
95 : 3

قُلْ صَدَقَ اللّٰهُ ۫— فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا ؕ— وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ ۟

کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ سچا ہے تم سب ابراہیم حنیف کے ملت کی پیروی کرو، جو مشرک نہ تھے. info
التفاسير:

external-link copy
96 : 3

اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّهُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ ۟ۚ

اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ (شریف) میں ہے(1) جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت واﻻ ہے. info

(1) یہ یہود کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے، وہ کہتے تھے کہ بیت المقدس سب سے پہلا عبادت خانہ ہے۔ محمد (صلى الله عليه وسلم) اور ان کے ساتھیوں نے اپنا قبلہ کیوں بدل لیا ؟ اس کے جواب میں کہا گیا تمہارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ پہلا گھر،جو اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کیا گیا ہے، وہ ہے جو مکہ میں ہے۔

التفاسير:

external-link copy
97 : 3

فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ ۚ۬— وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا ؕ— وَلِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا ؕ— وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ ۟

جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اس میں جو آ جائے امن واﻻ ہو جاتا ہے(1) اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راه پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے(2)۔ اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ (اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بے پرواه ہے.(3) info

(1) اس میں قتال، خوں ریزی، شکار حتیٰ کہ درخت تک کا کاٹنا ممنوع ہے (صحيحين)
(2) (راہ پا سکتے ہوں) کا مطلب زاد راہ کی استطاعت اور فراہمی ہے۔ یعنی اتنا خرچ کہ سفر کے اخراجات پورے ہو جائیں۔ علاوہ ازیں استطاعت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ راستہ پرامن ہو اور جان ومال محفوظ رہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ صحت وتندرستی کے لحاظ سے سفر کے قابل ہو۔ نیز عورت کے لئے محرم بھی ضروری ہے۔ (فتح القدير) یہ آیت ہر صاحب استطاعت کے لئے وجوب حج کی دلیل ہے اور احادیث سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ عمر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے (تفسير ابن كثير)
(3) استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے کو قرآن نے (کفر) سے تعبیرکیا ہے جس سے حج کی فرضیت میں اور اس کی تاکید میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ احادیث وآثار میں بھی ایسے شخص کے لئے سخت وعید آئی ہے۔ (تفسير ابن كثير)

التفاسير:

external-link copy
98 : 3

قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ۖۗ— وَاللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰی مَا تَعْمَلُوْنَ ۟

آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو؟ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس پر گواه ہے. info
التفاسير:

external-link copy
99 : 3

قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا وَّاَنْتُمْ شُهَدَآءُ ؕ— وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ۟

ان اہل کتاب سے کہو کہ تم اللہ تعالیٰ کی راه سے لوگوں کو کیوں روکتے ہو؟ اور اس میں عیب ٹٹولتے ہو، حاﻻنکہ تم خود شاہد ہو(1) ، اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں. info

(1) یعنی تم جانتے ہو کہ یہ دین اسلام حق ہے، اس کے داعی اللہ کے سچے پیغمبر ہیں کیونکہ یہ باتیں ان کتابوں میں درج ہیں جو تمہارے انبیاء پر اتریں اور جنہیں تم پڑھتے ہو۔

التفاسير:

external-link copy
100 : 3

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ ۟

اے ایمان والو! اگر تم اہل کتاب کی کسی جماعت کی باتیں مانو گے تو وه تمہیں تمہارے ایمان ﻻنے کے بعد مرتد کافر بنا دیں(1) گے. info

(1) یہودیوں کے مکر وفریب اور ان کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی مذموم کوششوں کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی ان کی سازشوں سے ہوشیار رہو اور قرآن کی تلاوت کرنے اور رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے موجود ہونے کے باوجود کہیں یہود کے جال میں نہ پھنس جاؤ۔ اس کا پس منظر تفسیری روایات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انصار کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج ایک مجلس میں اکھٹے بیٹھے باہم گفتگو کر رہے تھے کہ شاس بن قیس یہودی ان کے پاس سے گزرا اور ان کا باہمی پیار دیکھ کر جل بھن گیا کہ پہلے ایک دوسرے کے سخت دشمن تھےاور اب اسلام کی برکت سے باہم شیروشکر ہوگئے ہیں۔ اس نے ایک نوجوان کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ ان کے درمیان جاکر جنگ بعاث کا تذکرہ کرے جو ہجرت سے ذرا پہلے ان کے درمیان برپا ہوئی تھی اور انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو رزمیہ اشعار کہے تھے وہ ان کو سنائے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، جس پر ان دونوں قبیلوں کےپرانے جذبات پھربھڑک اٹھے اور ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے لگے یہاں تک کہ ہتھیار اٹھانے کے لئے للکار اور پکار شروع ہوگئی۔ اور قریب تھا کہ ان میں باہم قتال بھی شروع ہو جائے کہ اتنے میں نبی (صلى الله عليه وسلم) تشریف لے آئے اور انہیں سمجھایا اور وہ باز آگئے اس پر یہ آیت بھی اور جو آگے آرہی ہے وہ بھی نازل ہوئیں۔ (تفسير ابن كثير، فتح القدير وغيره)

التفاسير: