(1) اسلام سے قبل ایک یہ ظلم بھی روا رکھا جاتا تھا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا تھا اور صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے، سارے مال کے وارث قرار پاتے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مردوں کی طرح عورتیں اور بچے بچیاں اپنے والدین اور اقارب کے مال میں حصہ دار ہوں گی، انہیں محروم نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصے سے نصف ہے (جیسا کہ آیات کے بعد مذکور ہے) یہ عورت پر ظلم نہیں ہے نہ اس کا استخفاف ہے بلکہ اسلام کا یہ قانون میراث عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ عورت کو اسلام نے معاش کی ذمہ داری سے فارغ رکھا ہے اور مرد کو اس کاکﻔیل بنایا ہے۔ علاوہ ازیں عورت کے پاس مہر کی صورت میں مال آتا ہے جو ایک مرد ہی اسے ادا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے عورت کے مقابلے میں مرد پر کئی گنا زیادہ مالی ذمہ داریاں ہیں۔ اس لئے اگر عورت کا حصہ نصف کے بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پر ظلم ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی پر بھی ظلم نہیں کیا ہے کیونکہ وہ عادل بھی ہے اور حکیم بھی۔
(1) اسے بعض علما نے آیت میراث سے منسوخ قرار دیا ہے لیکن صحیح تر بات یہ ہے کہ منسوخ نہیں، بلکہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ امداد کے مستحق رشتے داروں میں سے جو لوگ وراثت میں حصہ دار نہ ہوں، انہیں بھی تقسیم کے وقت کچھ دے دو۔ نیز ان سے بات بھی پیارو محبت کے انداز میں کرو۔ دولت کو آتے ہوئے دیکھ کر قارون وفرعون نہ بنو۔
(1) بعض مفسرین کے نزدیک اس کے مخاطب اوصیا ہیں (جن کو وصیت کی جاتی ہے) ان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ ان کے زیر کفالت جو یتیم ہیں ان کے ساتھ وہ ایسا سلوک کریں جو وہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنے مرنے کے بعد کیا جانا پسند کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کے مخاطب عام لوگ ہیں کہ وہ یتیموں اور دیگر چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں، قطع نظر اس کے کہ وہ ان کی زیر کفالت ہیں یا نہیں بعض کے نزدیک اس کے مخاطب وہ ہیں جو قریب المرگ کے پاس بیٹھے ہوں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرنے والے کو اچھی باتیں سمجھائیں تاکہ وہ نہ حق اللہ میں کوتاہی کر سکے نہ حقوق بنی آدم میں اور وصیت میں وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھے۔ اگر وہ خوب صاحب حیثیت ہے تو ایک تہائی مال کی وصیت ایسے لوگوں کے حق میں ضرور کرے جو اس کے قریبی رشتہ داروں میں غریب اور مستحق امداد ہیں یا پھر کسی دینی مقصد اور ادارے پر خرچ کرنے کی وصیت کرے تاکہ یہ مال اس کے لئے زاد آخرت بن جائے اور اگر وہ صاحب حیثیت نہیں ہے تو اسے تہائی مال میں وصیت کرنے سے روکا جائے تاکہ اس کے اہل خانہ بعد میں مفلسی اور احتیاج سے دوچار نہ ہوں۔ اسی طرح کوئی اپنے ورثا کو محروم کرنا چاہے تو اس سے اس کو منع کیا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ اگر ان کے بعد ان کے بچے فقروفاقہ سے دوچار ہو جائیں تو اس کے تصور سے ان پر کیا گزرے گی۔ اس تفصیل سے مذکورہ سارے ہی مخاطبین اس کا مصداق ہیں۔ (تفسیر قرطبی وفتح القدیر)
(1) اس کی حکمت اور اس کا مبنی برعدل وانصاف ہونا ہم واضح کر آئے ہیں۔ ورثا میں لڑکی اور لڑکے دونوں ہوں تو پھر اس اصول کے مطابق تقسیم ہوگی۔ لڑکے چھوٹے ہوں یا بڑے، اسی طرح لڑکیاں چھوٹی ہو یا بڑی سب وراث ہوں گی۔ حتی کہ جنين( ماں کے پیٹ میں زیر پرورش بچہ) بھی وراث ہوگا۔ البتہ کافر اولاد وارث نہ ہوگی۔
(2) یعنی بیٹا کوئی نہ ہو تو مال کا دو تہائی (یعنی کل مال کے تین حصے کرکے دو حصے) دو سے زائد لڑکیوں کو دیئے جائیں گے اور اگر صرف دو ہی لڑکیاں ہوں، تب بھی انہیں دو تہائی حصہ ہی دیا جائے گا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ سعد بن ربیع (رضي الله عنه) احد میں شہید ہوگئے اور ان کی دو لڑکیاں تھیں۔ مگر سعد کے سارے مال پر ان کے ایک بھائی نے قبضہ کر لیا تو نبی (صلى الله عليه وسلم) نے ان دونوں لڑکیوں کو ان کے چچا سے دو ثلث مال دلوایا (ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ، کتاب الفرائض) علاوہ ازیں سورۂ نساء کے آخر میں بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی مرنے والے کی وارث صرف دو بہنیں ہوں تو ان کے لئے بھی دو تہائی حصہ ہے لہٰذا جب دو بہنیں دو تہائی مال کی وارث ہوں گی تو دو بیٹیاں بطریق اولیٰ دو تہائی مال کی وارث ہوں گی جس طرح دو بہنوں سے زیادہ ہونے کی صورت میں انہیں دو سے زیادہ بیٹیوں کے حکم میں رکھا گیا ہے (فتح القدیر) خلاصۂ مطلب یہ ہوا کہ دو یا دو سے زائد لڑکیاں ہوں، تو دونوں صورتوں میں مال متروکہ سے دو تہائی لڑکیوں کا حصہ ہوگا، باقی مال عصبہ میں تقسیم ہوگا۔
(3) ماں باپ کے حصے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں یہ پہلی صورت ہے کہ مرنے والے کی اگر اولاد بھی ہو تو مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو ایک ایک سدس ملے گا یعنی باقی دو تہائی مال اولاد پر تقسیم ہو جائے گا البتہ اگر مرنے والے کی اولاد صرف ایک بیٹی ہو تو اس میں سے چونکہ صرف نصف مال (یعنی چھ حصوں میں سے 3 حصے) بیٹی کے ہوں گے اور ایک سدس (چھٹا حصہ) ماں کو اور ایک سدس باپ کو دینے کے بعد مزید ایک سدس باقی بچ جائے گا اس لئے بچنے والا یہ سدس بطور عصبہ باپ کے حصہ میں جائے گا یعنی اس صورت میں باپ کو دو سدس ملیں گے، ایک باپ کی حیثیت سے دوسرے، عصبہ ہونے کی حیثیت سے۔
(4) یہ دوسری صورت ہے کہ مرنے والے کی اولاد نہیں ہے (یاد رہے کہ پوتا پوتی بھی اولاد میں اجماعاً شامل ہیں) اس صورت میں ماں کے لئے تیسرا حصہ اور باقی دو حصے (جو ماں کے حصے میں دو گنا ہیں) باپ کو بطورعصبہ ملیں گے اور اگر ماں باپ کے ساتھ مرنے والے مرد کی بیوی یا مرنے والی عورت کا شوہر بھی زندہ ہے تو راجح قول کے مطابق بیوی یا شوہر کا حصہ (جس کی تفصیل آرہی ہے) نکال کر باقی ماندہ مال میں سے ماں کے لئے ثلث (تیسرا حصہ) اورباقی باپ کے لئے ہوگا۔
(5) تیسری صورت یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ، مرنے والے کے بھائی بہن زندہ ہیں، وہ بھائی چاہے سگے (عینی) ہوں یعنی ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں۔ یا باپ ایک ہو، مائیں مختلف ہوں یعنی علاتی بھائی بہن ہوں یا ماں ایک ہو، باپ مختلف ہوں یعنی اخیافی بھائی بہن ہوں۔ اگرچہ یہ بھائی بہن میت کے باپ کی موجودگی میں وراثت کے حق دار نہیں ہوں گے لیکن ماں کے لئے حجب (نقصان کا سبب) بن جائیں گے یعنی جب ایک سے زیادہ ہوں گے تو ماں کے ثلث (تیسرے حصے) کو سدس (چھٹے حصے) میں تبدیل کر دیں گے۔ باقی سارا مال ( 5/6) باپ کے حصہ میں چلا جائے گا۔ بشرطیکہ کوئی اور وارث نہ ہو۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک دو بھائیوں کا بھی وہی حکم ہے جو دو سے زیادہ بھائیوں کا مذکور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک بھائی یا بہن ہو تو اس صورت میں مال میں ماں کا حصہ ثلث برقرار رہے گاوہ سدس میں تبدیل نہیں ہوگا۔ (تفسیر ابن کثیر)
(6) اس لئے تم اپنی سمجھ کے مطابق وراثت تقسیم مت کرو، بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق جس کا جتنا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے،وہ ان کو دو۔