Përkthimi i kuptimeve të Kuranit Fisnik - Përkthimi në gjuhën urdu - Muhamed Xhonakri

Numri i faqes:close

external-link copy
80 : 4

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ— وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًا ۟ؕ

اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جو منھ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ info
التفاسير:

external-link copy
81 : 4

وَیَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ ؗ— فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِكَ بَیَّتَ طَآىِٕفَةٌ مِّنْهُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ ؕ— وَاللّٰهُ یَكْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ ۚ— فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ ؕ— وَكَفٰی بِاللّٰهِ وَكِیْلًا ۟

یہ کہتے تو ہیں کہ اطاعت ہے، پھر جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلتے ہیں تو ان میں کی ایک جماعت، جو بات آپ نے یا اس نے کہی ہے اس کے خلاف راتوں کو مشورے کرتی ہے(1) ، ان کی راتوں کی بات چیت اللہ لکھ رہا ہے، تو آپ ان سے منھ پھیر لیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں، اللہ تعالیٰ کافی کارساز ہے۔ info

(1) یعنی یہ منافقین آپ (صلى الله عليه وسلم) کی مجلس میں جو باتیں ظاہر کرتے ہیں۔ راتوں کو ان کے برعکس باتیں کرتے اور سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) ان سے اعراض کریں اور اللہ پر توکل کریں، ان کی باتیں اور سازشیں آپ (صلى الله عليه وسلم) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی کیونکہ آپ کا وکیل اور کارساز اللہ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
82 : 4

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ؕ— وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا ۟

کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔(1) info

(1) قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس میں غور وتدبر کی تاکید کی جا رہی ہے اور اس کی صداقت جانچنے کے لئے ایک معیار بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر یہ کسی انسان کا بنایا ہوا کلام ہوتا (جیسا کہ کفار کا خیال ہے) تو اس کے مضامین اور بیان کردہ واقعات میں تعارض وتناقص ہوتا۔ کیونکہ ایک تو یہ کوئی چھوٹی سی کتاب نہیں ہے۔ ایک ضخیم اور مفصّل کتاب ہے، جس کا ہر حصہ اعجاز وبلاغت میں ممتاز ہے۔ حالانکہ انسان کی بنائی ہوئی بڑی تصنیف میں زبان کا معیار اور اس کی فصاحت وبلاغت قائم نہیں رہتی۔ دوسرے، اس میں پچھلی قوموں کے واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں۔ جنہیں اللہ علاّم الغیوب کے سوا کوئی اور بیان نہیں کر سکتا۔ تیسرے ان حکایات وقصص میں نہ باہمی تعارض وتضاد ہے اور نہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا کوئی جزئیہ قرآن کی کسی اصل سے ٹکراتا ہے۔ حالانکہ ایک انسان گزشتہ واقعات بیان کرے تو تسلسل کی کڑیاں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور ان کی تفصیلات میں تعارض وتضاد واقع ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم کے ان تمام انسانی کوتاہیوں سے مبرّا ہونے کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ یقیناً کلام الٰہی ہے جو اس نے فرشتے کے ذریعے سے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
83 : 4

وَاِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ؕ— وَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰۤی اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ ؕ— وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا ۟

جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حاﻻنکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے، تو اس کی حقیقت وه لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں(1) اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوه تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔ info

(1) یہ بعض کمزور اورجلد باز مسلمانوں کا رویہ، ان کی اصلاح کی غرض سے بیان کیا جا رہا ہے۔ امن کی خبر سے مراد مسلمانوں کی کامیابی اور دشمن کی ہلاکت وشکست کی خبر ہے۔ (جس کو سن کر امن اور اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جس کے نتیجے میں بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے جو نقصان کا باعث بن سکتی ہے) اور خوف کی خبر سے مراد مسلمانوں کی شکست اور ان کے قتل وہلاکت کی خبر ہے (جس سے مسلمانوں میں افسردگی پھیلنے اور ان کے حوصلے پست ہونے کا امکان ہوتا ہے)، اس لئے انہیں کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کی خبریں، چاہے امن کی ہوں یا خوف کی انہیں سن کر عام لوگوں میں پھیلانے کے بجائے رسول (صلى الله عليه وسلم) کے پاس پہنچا دو یا اہل علم وتحقیق میں انہیں پہنچا دو تاکہ وہ یہ دیکھیں کہ یہ خبر صحیح ہے یا غلط؟ اگر صحیح ہے تو اس وقت اس سے مسلمانوں کا باخبر ہونا مفید ہے یا بے خبر رہنا نفع ہے؟ یہ اصول ویسے تو عام حالات میں بھی بڑا اہم اور نہایت مفید ہے لیکن عین حالت جنگ میں تو اس کی اہمیت وافادیت بہت ہی زیادہ ہے۔ ”اسْتِنْبَاطٌ“ کا مادہ نَبْطٌ ہے نَبْطٌ اس پانی کو کہتے ہیں جو کنواں کھودتے وقت سب سے پہلے نکلتا ہے اسی لئے اسْتِنْبَاطٌ تحقیق اور بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے۔ (فتح القدیر )

التفاسير:

external-link copy
84 : 4

فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۚ— لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۚ— عَسَی اللّٰهُ اَنْ یَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ؕ— وَاللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْكِیْلًا ۟

تو اللہ تعالیٰ کی راه میں جہاد کرتا ره، تجھے صرف تیری ذات کی نسبت حکم دیا جاتا ہے، ہاں ایمان والوں کو رغبت دﻻتا ره، بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی جنگ کو روک دے اور اللہ تعالیٰ سخت قوت واﻻ ہے اور سزادینے میں بھی سخت ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
85 : 4

مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَا ۚ— وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَا ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا ۟

جو شخص کسی نیکی یا بھلے کام کی سفارش کرے، اسے بھی اس کا کچھ حصہ ملے گا اور جو برائی اور بدی کی سفارش کرے اس کے لئے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے واﻻ ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
86 : 4

وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا ؕ— اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا ۟

اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو(1) ، بے شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے واﻻ ہے۔ info

(1) تَحِيَّةٌ اصل میں تَحْيِيَةٌ (تَفْعِيلَةٌ) ہے۔ یا کے یا میں ادغام کے بعد تَحِيَّةٌ ہوگیا۔ اس کے معنی ہیں۔ درازی عمر کی دعا (الدُّعَاءُ بِالْحَيَاةِ) یہاں یہ سلام کرنے کے معنی میں ہے۔ (فتح القدیر) زیادہ اچھا جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ السّلام علیکم کے جواب میں ورحمتہ اللہ کا اضافہ اور السّلام علیکم ورحمۃ اللہ کے جواب میں وبرکاتہ کا اضافہ کر دیا جائے۔ لیکن اگر کوئی السّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے تو پھر اضافے کے بغیر انہی الفاظ میں جواب دیا جائے۔ (ابن کثیر) ایک اور حدیث میں ہے کہ صرف السّلام علیکم کہنے سے دس نیکیاں اس کے ساتھ ورحمۃ اللہ کہنے سے بیس نیکیاں اور برکاتہ کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ (مسند أحمد جلد 4، ص 439، 440)، یاد رہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لئے ہے، یعنی ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرے۔ لیکن اہل ذمّہ یعنی یہود ونصاریٰ کو سلام کرنا ہو تو ایک تو ان کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے۔ دوسرا، اضافہ نہ کیا جائے بلکہ صرف وعلیکم کے ساتھ جواب دیا جائے۔ (صحيح بخاري، كتاب الاستيذان- مسلم، كتاب السلام)

التفاسير: