पवित्र कुरअानको अर्थको अनुवाद - उर्दू अनुवादः मुहम्मद जौनाकरी ।

رقم الصفحة:close

external-link copy
196 : 7

اِنَّ وَلِیِّ اللّٰهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ۖؗ— وَهُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ ۟

یقیناً میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وه نیک بندوں کی مدد کرتا ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
197 : 7

وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَاۤ اَنْفُسَهُمْ یَنْصُرُوْنَ ۟

اور تم جن لوگوں کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وه تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ وه اپنی مدد کرسکتے ہیں۔(1) info

(1) جو اپنی مدد آپ کرنے پر قادر نہ ہوں، وہ بھلا دوسروں کی مدد کیا کریں گے؟ جو خود محتاج ہووے دوسرے کا
بھلا اس سے مدد کا مانگنا کیا

التفاسير:

external-link copy
198 : 7

وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَی الْهُدٰی لَا یَسْمَعُوْا ؕ— وَتَرٰىهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ وَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ ۟

اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں(1) اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وه آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وه کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ info

(1) اس کا وہی مفہوم ہے جو آیت 193 کا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
199 : 7

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ ۟

آپ درگزر کو اختیار کریں(1) نیک کام کی تعلیم دیں(2) اور جاہلوں سے ایک کناره ہو جائیں۔(3) info

(1) بعض علماء نے اس کے معنی کیے ہیں ”خُذْ مَا عَفَا لَكَ مِنْ أَمْوَالِهِمْ أَيْ: مَا فَضَلَ“ یعنی ”جو ضرورت سے زائد مال ہو، وہ لے لو“ اور یہ زکوٰۂ کی فرضیت سے قبل کا حکم ہے۔ ( فتح الباري، جلد 8، ص 305) لیکن دوسرے مفسرین نے اس سے اخلاقی ہدایت یعنی عفو و درگزر مراد لیا ہے اور امام ابن جریر اور امام بخاری وغیرہ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ امام بخاری نے اس کی تفسیر میں حضرت عمر (رضي الله عنه)، کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ عیینہ بن حصن حضرت عمر (رضي الله عنه)، کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر ان پر تنقید کرنے لگے کہ آپ ہمیں نہ پوری عطا دیتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان انصاف کرتے ہیں جس پر حضرت عمر (رضي الله عنه) غضب ناک ہوئے، یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر (رضي الله عنه)، کے مشیر حر بن قیس نے (جو عیینہ کے بھیتجے تھے) حضرت عمر س، سے کہا کہ ”اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی (صلى الله عليه وسلم) کو حکم فرمایا تھا۔ «خُذِ ٱلۡعَفۡوَ وَأۡمُرۡ بِٱلۡعُرۡفِ وَأَعۡرِضۡ عَنِ ٱلۡجَٰهِلِينَ» [الأعراف: 199]. ”درگزر کو اختیار کیجئے اور نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے اعراض کیجئے“۔ اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہے“۔ جس پر حضرت عمر (رضي الله عنه)، نے درگزر فرما دیا۔ ”وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللهِ“ اور حضرت عمر (رضي الله عنه) اللہ کی کتاب کا حکم سن کر فوراً گردن خم کر دینے والے تھے۔ (صحيح بخاري - تفسير سورة الأعراف ) اس کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ظلم کے مقابلے میں معاف کر دینے، قطع رحمی کے مقابلے میں صلۂ رحمی اور برائی کے بدلے احسان کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔
(2) ”عُرْفٌ“ سے مراد معروف یعنی نیکی ہے ۔
(3) یعنی جب آپ نیکی کا حکم دینے میں اتمام حجت کر چکیں اور پھر بھی وہ نہ مانیں تو ان سے اعراض فرما لیں اور ان کے جھگڑوں اور حماقتوں کا جواب نہ دیں ۔

التفاسير:

external-link copy
200 : 7

وَاِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ؕ— اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۟

اور اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناه مانگ لیا کیجئے(1) بلاشبہ وه خوب سننے واﻻ خوب جاننے واﻻ ہے۔ info

(1) اور اس موقعے پر اگر آپ کو شیطان اشتعال میں لانے کی کوشش کرے تو آپ اللہ کی پناہ طلب فرمائیں۔

التفاسير:

external-link copy
201 : 7

اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىِٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَ ۟ۚ

یقیناً جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطره شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وه یاد میں لگ جاتے ہیں، سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔(1) info

(1) اس میں اہل تقویٰ کی بابت بتلایا گیا ہے کہ وہ شیطان سے چوکنا رہتے ہیں۔ طائف یا طیف، اس تخیل کو کہتے ہیں جو دل میں آئے یا خواب میں نظر آئے۔ یہاں اسے شیطانی وسوسے کے معنی میں استعمال کیا گیا، کیونکہ وسوسۂ شیطانی بھی خیالی تصورات کے مشابہ ہے۔ ( فتح القدیر)

التفاسير:

external-link copy
202 : 7

وَاِخْوَانُهُمْ یَمُدُّوْنَهُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ ۟

اور جو شیاطین کے تابع ہیں وه ان کو گمراہی میں کھینچے لے جاتے ہیں پس وه باز نہیں آتے۔(1) info

(1) یعنی شیطان کافروں کو گمراہی کی طرف کھینچے لے جاتے ہیں، پھر وہ کافر (گمراہی کی طرف جانے میں) یا شیطان انکو لے جانے میں کوتاہی کمی نہیں کرتے۔ یعنی لا يُقْصِرُونَ کا فاعل کافر بھی بن سکتے ہیں اور إِخْوانُ الكُفَّارِ شیاطین بھی ۔

التفاسير:

external-link copy
203 : 7

وَاِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰیَةٍ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَیْتَهَا ؕ— قُلْ اِنَّمَاۤ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰۤی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ ۚ— هٰذَا بَصَآىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًی وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ۟

اور جب آپ کوئی معجزه ان کے سامنے ﻇاہر نہیں کرتے تو وه لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزه کیوں نہ ﻻئے؟(1) آپ فرما دیجئے! کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں۔(2) info

(1) مراد ایسا معجزہ ہے جو ان کے کہنے پر ان کی خواہش کے مطابق ظاہر کرکے دکھایا جائے۔ جیسے ان کے بعض مطالبات سورۂ بنی اسرائیل، آیت: 90۔ 93 میں بیان کیے گئے ہیں۔
(2) ”لَوْلا اجْتَبَيْتَهَا“ کے معنی ہیں، تو اپنے پاس سے ہی کیوں نہیں بنا لاتا؟ اس کے جواب میں بتلایا گیا کہ آپ فرما دیں، معجزات پیش کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے میں تو صرف وحی الٰہی کا پیروکار ہوں۔ ہاں البتہ یہ قرآن جو میرے پاس آیا ہے، یہ بجائے خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ اس میں تمہارے رب کی طرف سے بصائر ( دلائل وبراہین) اور ہدایت وہ رحمت ہے۔ بشرطیکہ کوئی ایمان لانے والا ہو۔

التفاسير:

external-link copy
204 : 7

وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۟

اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔(1) info

(1) یہ ان کافروں کو کہا جارہا ہے جو قرآن کی تلاوت کرتے وقت شور کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو کہتے تھے: «لَا تَسۡمَعُواْ لِهَٰذَا ٱلۡقُرۡءَانِ وَٱلۡغَوۡاْ فِيهِ» [فصلت: 26] ”یہ قرآن مت سنو اور شور کرو“، ان سے کہا گیا کہ اس کے بجائے تم اگر غور سے سنو اور خاموش رہو تو شاید اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت سے نواز دے۔ اور یوں تم رحمت الٰہی کے مستحق بن جاؤ۔
بعض ائمۂ دین اسے عام مراد لیتے ہیں جب بھی قرآن پڑھا جائے، چاہے نماز ہو یا غیر نماز، سب کو خاموشی سے قرآن سننے کا حکم ہے اور پھر وہ اس عموم سے استدلال کرتے ہوئے جہری نمازوں میں مقتدی کے سورۂ فاتحہ پڑھنے کو بھی اس قرآنی حکم کے خلاف بتاتے ہیں ۔ لیکن دوسرے علماء کی رائے یہ ہے کہ جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کی تاکید نبی (صلى الله عليه وسلم) سے صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت کو صرف کفار کے متعلق ہی سمجھنا صحیح ہے، جیسا کہ اس کے مکی ہونے سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن اگر اسے عام سمجھا جائے تب بھی اس عموم سے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے مقتدیوں کو خارج فرما دیا اور یوں قرآن کے اس عموم کے باوجود جہری نمازوں میں مقتدیوں کا سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہوگا۔ کیونکہ قرآن کے اس عموم کی یہ تخصیص صحیح وقوی احادیث سے ثابت ہے۔ بنا بریں جس طرح اور بعض عمومات قرآنی کی تخصیص احادیث کی بنیاد پر تسلیم کی جاتی ہے، مثلاً آیت «الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا» الآية (النور: 2) کے عموم سے شادی شدہ زانی کا اخراج، اور «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ» (المائدۃ: 38) کے عموم سے ایسے چور کا اخراج یا تخصیص جس نے ربع دینار سے کم مالیت کی چیز چوری کی ہو یا چوری شدہ چیز، حرز میں نہ رکھی ہو، وغیرہ۔ اسی طرح «فَٱسۡتَمِعُواْ لَهُۥ وَأَنصِتُواْ» کے عمومی حکم سے مقتدی خارج ہوں گے اور ان کے لیے جہری نمازوں میں بھی سورۂ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہوگا، کیونکہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے اس کی تاکید فرمائی ہے۔ (جیسا کہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں یہ احادیث بیان کی گئی ہیں)۔

التفاسير:

external-link copy
205 : 7

وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ ۟

اور(اے پیغمبر ) اپنے رب کي یاد کیا کراپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح اور شام اور اہل غفلت میں سے مت ہونا۔ info
التفاسير:

external-link copy
206 : 7

اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَیُسَبِّحُوْنَهٗ وَلَهٗ یَسْجُدُوْنَ ۟

یقیناً جو تیرے رب کے نزدیک ہیں وه اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس کو سجده کرتے ہیں۔ info
التفاسير: