पवित्र कुरअानको अर्थको अनुवाद - उर्दू अनुवादः मुहम्मद जौनाकरी ।

رقم الصفحة:close

external-link copy
160 : 7

وَقَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا ؕ— وَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰی مُوْسٰۤی اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗۤ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۚ— فَانْۢبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا ؕ— قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ؕ— وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَیْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی ؕ— كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ؕ— وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ ۟

اور ہم نے ان کو باره خاندانوں میں تقسیم کرکے سب کی الگ الگ جماعت مقرر کر دی(1) اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا جب کہ ان کی قوم نے ان سے پانی مانگا کہ اپنے عصا کو فلاں پتھر پر مارو پس فوراً اس سے باره چشمے پھوٹ نکلے۔ ہر ہر شخص نے اپنے پانی پینے کا موقع معلوم کر لیا۔ اور ہم نے ان پر ابر کو سایہ فگن کیا اور ان کو من وسلوی (ترنجبین اور بٹیریں) پہنچائیں، کھاؤ نفیس چیزوں سے جو کہ ہم نے تم کو دی ہیں اور انہوں نے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا لیکن اپنا ہی نقصان کرتے تھے۔ info

(1) ”أَسْبَاطٌ“ سِبْطٌ کی جمع ہے، بمعنی پوتا۔ یہاں اسباط قبائل کے معنی میں ہیں۔ یعنی حضرت یعقوب (عليه السلام) کے بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے معرض وجود میں آئے، ہر قبیلے پر اللہ تعالیٰ نے ایک ایک نقیب (نگران ) بھی مقرر فرما دیا تھا، ”وَبَعَثۡنَا مِنۡهُمُ ٱثۡنَيۡ عَشَرَ نَقِيبٗا“ [المائدة: 12]. یہاں اللہ تعالیٰ ان بارہ قبیلوں کے بعض بعض صفات میں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے کی بنا پر ان کے الگ الگ گروہ ہونے کو بطور امتنان کے ذکر فرما رہا ہے ۔

التفاسير:

external-link copy
161 : 7

وَاِذْ قِیْلَ لَهُمُ اسْكُنُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ وَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُوْلُوْا حِطَّةٌ وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِیْٓـٰٔتِكُمْ ؕ— سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ ۟

اور جب ان کو حکم دیا گیا کہ تم لوگ اس آبادی میں جاکر رہو اور کھاؤ اس سے جس جگہ تم رغبت کرو اور زبان سے یہ کہتے جانا کہ توبہ ہے اور جھکے جھکے دروازه میں داخل ہونا ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے۔ جو لوگ نیک کام کریں گے ان کو مزید برآں اور دیں گے۔ info
التفاسير:

external-link copy
162 : 7

فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَظْلِمُوْنَ ۟۠

سو بدل ڈاﻻ ان ﻇالموں نے ایک اور کلمہ جو خلاف تھا اس کلمہ کے جس کی ان سے فرمائش کی گئی تھی، اس پر ہم نے ان پر ایک آفت سماوی بھیجی اس وجہ سے کہ وه حکم کو ضائع کرتے تھے۔(1) info

(1) 160 تا 162 آیات میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں، یہ وہ ہیں جو پارہ آلم، سورۂ بقرہ کے آغاز میں بیان کی گئی ہیں ۔ وہاں ان کی تفصیل ملاحظہ فرما لی جائے۔

التفاسير:

external-link copy
163 : 7

وَسْـَٔلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۘ— اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّیَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ ۙ— لَا تَاْتِیْهِمْ ۛۚ— كَذٰلِكَ ۛۚ— نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۟

اور آپ ان لوگوں سے(1) ، اس بستی والوں کا(2) جو کہ دریائے (شور) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھئے! جب کہ وه ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جب کہ ان کے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ﻇاہر ہو ہو کر ان کے سامنے آتی تھیں، اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں، ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وه بےحکمی کیا کرتے تھے۔(1) info

(1) ”وَسْئَلْهُمْ“ میں ”هُمْ“ ضمیر سے مراد یہود ہیں ۔ یعنی ان سے پوچھئے۔ اس میں یہودیوں کو یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اس واقعے کا علم نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو بھی ہے جو آپ (صلى الله عليه وسلم) کی صداقت کی دلیل ہے، کیونکہ اللہ کی طرف سے وحی کے بغیر آپ (صلى الله عليه وسلم) کو اس واقعے کا علم نہیں ہوسکتا تھا ۔
(2) اس بستی کی تعیین میں اختلاف ہے، کوئی اس کا نام ایلہ کوئی طبریہ کوئی ایلیا اور کوئی شام کی کوئی بستی، جو سمندر کے قریب تھی، بتلاتا ہے ۔ مفسرین کا زیادہ رجحان ”ایلہ“ کی طرف ہے جو مدین اور کوہ طور کے درمیان دریائے قلزم کے ساحل پر تھی۔
(3) ”حِيتَانٌ“ حُوتٌ ( مچھلی ) کی جمع ہے۔ ”شُرَّعًا“ شَارِعٌ کی جمع ہے ۔ معنی ہیں پانی کے اوپر ابھر ابھر کر آنے والیاں ۔ یہ یہودیوں کے اس واقعے کی طرف اشارہ ہیں جس میں انہیں ہفتے والے دن مچھلیوں کا شکار کرنے سے منع کردیا گیا تھا ۔ لیکن بطور آزمائش ہفتے والے دن مچھلیاں کثرت سے آتیں اور پانی کے اوپر ظاہر ہوہو کر انہیں دعوت شکار دیتیں ۔ اور جب یہ دن گزر جاتا تو اس طرح نہ آتیں۔ بالآخر یہودیوں نے ایک حیلہ کرکے حکم الٰہی سے تجاوز کیا کہ گڑھے کھود لیے تا کہ مچھلیاں اس میں پھنسی رہیں اور جب ہفتے کا دن گزر جاتا تو پھر انہیں پکڑ لیتے۔

التفاسير: