पवित्र कुरअानको अर्थको अनुवाद - उर्दू अनुवादः मुहम्मद जौनाकरी ।

رقم الصفحة:close

external-link copy
105 : 7

حَقِیْقٌ عَلٰۤی اَنْ لَّاۤ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ ؕ— قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ۟ؕ

میرے لیے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل بھی ﻻیا ہوں(1) ، سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔(2) info

(1) جو اس بات کی دلیل ہے کہ میں واقعی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ رسول ہوں ۔ اس معجزے اور بڑی دلیل کی تفصیل بھی آگے آرہی ہے ۔
(2) بنی اسرائیل ، جن کا اصل مسکن شام کا علاقہ تھا، حضرت یوسف (عليه السلام) کے زمانے میں مصر چلے گئے تھے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ فرعون نے ان کو غلام بنا لیا تھا اور ان پر طرح طرح کے مظالم کرتا تھا، جس کی تفصیل پہلے سورۂ بقرہ میں گزر چکی ہے اور آئندہ بھی آئے گی۔ فرعون اور اس کے درباری امراء نے جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی دعوت کو ٹھکرا دیا تو حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے فرعون سے یہ دوسرا مطالبہ کیا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردے تاکہ یہ اپنے آبائی مسکن میں جا کر عزت و احترام کی زندی گزاریں اور اللہ کی عبادت کریں۔

التفاسير:

external-link copy
106 : 7

قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ۟

فرعون نے کہا، اگر آپ کوئی معجزه لے کر آئے ہیں تو اس کو اب پیش کیجئے! اگر آپ سچے ہیں۔ info
التفاسير:

external-link copy
107 : 7

فَاَلْقٰی عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ ۟ۚۖ

پس آپ نے اپنا عصا ڈال دیا، سو دفعتاً وه صاف ایک اﮊدھا بن گیا۔ info
التفاسير:

external-link copy
108 : 7

وَّنَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ ۟۠

اور اپنا ہاتھ باہر نکالا سو وه یکایک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہو گیا۔(1) info

(1) یعنی اللہ تعالیٰ نے جو دو بڑے معجزے انہیں عطا فرمائے تھے، اپنی صداقت کے لیے انہیں پیش کر دیا ۔

التفاسير:

external-link copy
109 : 7

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ ۟ۙ

قوم فرعون میں جو سردار لوگ تھے انہوں نے کہا کہ واقعی یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے۔(1) info

(1) معجزے دیکھ کر، ایمان لانے کے بجائے، فرعون کے درباریوں نے اسے جادو قرار دے کر یہ کہہ دیا کہ یہ تو بڑا ماہر جادوگر ہے جس سے اس کا مقصد تمہاری حکومت کو ختم کرنا ہے۔ کیونکہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے زمانے میں جادو کا بڑا زور اور اس کا عام چلن تھا، اس لیے انہوں نے معجزات کو بھی جادو سمجھا، جن میں سرے سے انسان کا دخل ہی نہیں ہوتا۔ خالص اللہ کی مشیت سے ظہور میں آتے ہیں۔ تاہم اس عنوان سے فرعون کے درباریوں کے لیے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے بارے میں فرعون کو بہکانے کا موقع مل گیا۔

التفاسير:

external-link copy
110 : 7

یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ ۚ— فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ ۟

یہ چاہتا ہے کہ تم کو تمہاری سرزمین سے باہر کر دے سو تم لوگ کیا مشوره دیتے ہو۔ info
التفاسير:

external-link copy
111 : 7

قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ وَاَرْسِلْ فِی الْمَدَآىِٕنِ حٰشِرِیْنَ ۟ۙ

انہوں نے کہا کہ آپ ان کو اور ان کے بھائی کو مہلت دیجئے اور شہروں میں ہرکاروں کو بھیج دیجئے۔ info
التفاسير:

external-link copy
112 : 7

یَاْتُوْكَ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ ۟

کہ وه سب ماہر جادو گروں کو آپ کے پاس ﻻ کر حاضر کر دیں۔(1) info

(1) حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے زمانے میں جادوگری کو بڑا عروج حاصل تھا ۔ اسی لیے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے پیش کردہ معجزات کو بھی انہوں نے جادو سمجھا اور جادو کے ذریعے سے اس کا توڑ مہیا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، کہ فرعون اور اس کے درباریوں نے کہا ”اے موسیٰ! (عليه السلام) کیا تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری زمین سے نکال دے؟، پس ہم بھی اس جیسا جادو تیرے مقابلے میں لائیں گے، اس کے لیے کسی ہموار جگہ اور وقت کا ہم تعین کرلیں جس کی دونوں پابندی کریں، حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے کہا کہ نو روز کا دن اور چاشت کا وقت ہے، اس حساب سے لوگ جمع ہوجائیں“۔ (سورہ طٰہ: 57۔59)

التفاسير:

external-link copy
113 : 7

وَجَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ ۟

اور وه جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے، کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آئے تو ہم کو کوئی بڑا صلہ ملے گا؟۔ info
التفاسير:

external-link copy
114 : 7

قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ ۟

فرعون نے کہا کہ ہاں اور تم مقرب لوگوں میں داخل ہو جاؤ گے۔(1) info

(1) جادوگر، چوں کہ طالب دنیا تھے، دنیا کمانے کے لیے ہی شعبدہ بازی کا فن سیکھتے تھے، اس لیے انہوں نے موقع غنیمت جانا کہ اس وقت تو بادشاہ کو ہماری ضرورت لاحق ہوئی ہے، کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ اجرت حاصل کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا مطالبۂ اجرت، کامیابی کی صورت میں پیش کر دیا، جس پر فرعون نے کہا کہ اجرت ہی نہیں بلکہ تم میرے مقربین میں بھی شامل ہو جاؤ گے۔

التفاسير:

external-link copy
115 : 7

قَالُوْا یٰمُوْسٰۤی اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ ۟

ان ساحروں نے عرض کیا کہ اے موسیٰ! خواه آپ ڈالئے اور یا ہم ہی ڈالیں؟(1) info

(1) جادوگروں نے یہ اختیار اپنے آپ پر مکمل اعتماد کرنے کی وجہ سے دیا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ ہمارے جادو کے مقابلے میں موسیٰ (عليه السلام) کا معجزہ، جسے وہ ایک کرتب ہی سمجھتے تھے، کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اور اگر موسی (عليه السلام) کو پہلے اپنے کرتب دکھانے کا موقع دے بھی دیا تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، ہم اس کے کرتب کا توڑ بہر صورت مہّیا کرلیں گے ۔

التفاسير:

external-link copy
116 : 7

قَالَ اَلْقُوْا ۚ— فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ وَجَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ ۟

(موسیٰ علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم ہی ڈالو(1) ، پس جب انہوں نے ڈاﻻ تو لوگوں کی نظر بندی کر دی اور ان پر ہیبت غالب کر دی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھلایا۔(2) info

(1) لیکن موسیٰ (عليه السلام) چونکہ اللہ کے رسول تھے اور اللہ کی تائید انہیں حاصل تھی، اس لیے انہیں اپنے اللہ کی مدد کا یقین تھا، لہذا انہوں نے بغیر کسی خوف اور تامل کے جادوگروں سے کہا کہ پہلے تم جو دکھانا چاہتے ہو، دکھاو! علاوہ ازیں اس میں یہ حکمت بھی ہوسکتی ہے کہ جادو گروں کے پیش کردہ جادو کا توڑ جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی طرف سے معجزانہ انداز میں پیش ہوگا تو یہ لوگوں کے لیے زیادہ متاثر کن ہوگا، جس سے ان کی صداقت واضح تر ہوگی اور لوگوں کے لیے ایمان لانا سہل ہو جائے گا ۔
(2) بعض آثار میں بتایا گیا ہے کہ یہ جادوگر 70 ہزار کی تعداد میں تھے ۔ بظاہر یہ تعداد مبالغے سے خالی نہیں، جن میں سے ہر ایک نے ایک ایک رسی اور ایک ایک لاٹھی میدان میں پھینکی، جو دیکھنے والوں کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں ۔ یہ گویا بزعم خویش بہت بڑا جادو تھا جو انہوں نے پیش کیا ۔

التفاسير:

external-link copy
117 : 7

وَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰی مُوْسٰۤی اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ ۚ— فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَ ۟ۚ

اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنا عصا ڈال دیجئے! سو عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے ان کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کیا۔(1) info

(1) لیکن یہ جو کچھ بھی تھا، ایک تخیل، شعبدہ بازی اور جادو تھا جو حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا، چنانچہ موسیٰ (عليه السلام) کے لاٹھی ڈالتے ہی سب کچھ ختم ہوگیا اور لاٹھی نے ایک خوفناک اژدھے کی شکل اختیار کرکے سب کچھ نگل لیا۔

التفاسير:

external-link copy
118 : 7

فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۟ۚ

پس حق ﻇاہر ہوگیا اور انہوں نے جو کچھ بنایا تھا سب جاتا رہا۔ info
التفاسير:

external-link copy
119 : 7

فَغُلِبُوْا هُنَالِكَ وَانْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَ ۟ۚ

پس وه لوگ اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوکر پھرے۔ info
التفاسير:

external-link copy
120 : 7

وَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَ ۟ۙ

اور وه جو ساحر تھے سجده میں گر گئے۔ info
التفاسير: