(1) یہ ہم کلامی کا دوسرا موقعہ تھا جس سے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو مشرف کیا گیا ہے ۔ اس سے قبل جب آگ لینے گئے تھے تو اللہ نے ہم کلامی سے نوازا تھا اور پیغمبری عطا فرمائی تھی ۔
(1) گویا تورات تختیوں کی شکل میں عطا فرمائی گئی جس میں ان کے لیے دینی احکام، امر ونہی اور ترغیب وترہیب کی پوری تفصیل تھی ۔
(2) یعنی رخصتوں کی ہی تلاش میں نہ رہیں جیسا کہ سہولت پسندوں کا حال ہوتا ہے ۔
(3) مقام (دار) سے مراد یا تو انجام یعنی ہلاکت ہے یا اس کا مطلب ہے کہ فاسقوں کے ملک پر تمہیں حکمرانی عطا کروں گا اور اس سے مراد ملک شام ہے جس پر اس وقت عمالقہ کی حکمرانی تھی ۔ جو اللہ کے نافرمان تھے ۔ (ابن کثیر)
(1) تکبر کا مطلب ہے اللہ کی آیات واحکام کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور لوگوں کو حقیر گرداننا۔ یہ تکبر، انسان کے لیے زیبا نہیں۔ کیونکہ اللہ خالق ہے اور وہ اس کی مخلوق ۔ مخلوق ہوکر، خالق کا مقابلہ کرنا اور اس کے احکام وہدایات سے اعراض وغفلت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اسی لیے تکبر اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ اس آیت میں تکبر کا نتیجہ بتلایا گیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ انہیں آیات الٰہی سے دور ہی رکھتا ہے اور پھر وہ اتنے دور ہوجاتے ہیں کہ کسی طرح کی بھی نشانی انہیں حق کی طرف لانے میں کامیاب نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا: «إِنَّ ٱلَّذِينَ حَقَّتۡ عَلَيۡهِمۡ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤۡمِنُونَ، وَلَوۡ جَآءَتۡهُمۡ كُلُّ ءَايَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُاْ ٱلۡعَذَابَ ٱلۡأَلِيمَ» [يونس: 96-97]. ”جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی وہ ایمان نہیں لائیں گے، چاہے ان کے پاس ہر طرح کی نشانی آجائے ۔ حتیٰ کہ وہ درد ناک عذاب دیکھ لیں“۔ (2) اس میں احکام الٰہیٰ سے اعراض کرنے والوں کی ایک اور عادت یا نفسیات کا بیان ہے کہ ہدایت کی کوئی بات ان کے سامنے آئے تو اسے تو نہیں مانتے، البتہ گمراہی کی کوئی چیز دیکھتے ہیں تو اسے فوراً اپنا لیتے اور راہ عمل بنا لیتے ہیں ۔ قرآن کریم کی بیان کردہ اس حقیقت کا ہر دور میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ آج ہم بھی ہر جگہ اور ہر معاشرے میں حتیٰ کہ مسلمان معاشروں میں بھی یہی کچھ دیکھ رہے ہیں کہ نیکی منہ چھپائے پھر رہی ہے اور بدی کو ہر کوئی لپک لپک کر اختیار کر رہا ہے۔
(3) یہ اس بات کا سبب بتلایا جارہا ہے کہ لوگ نیکی کے مقابلے میں بدی کو اور حق کے مقابلے میں باطل کو کیوں زیادہ اختیار کرتے ہیں؟ یہ سبب ہے آیات الٰہی کی تکذیب اور ان سے غفلت واعراض کا۔ یہ ہر معاشرے میں عام ہے۔
(1) اس میں آیات الٰہی کی تکذیب اور آخرت کا انکار کرنے والوں کا انجام بتلایا گیا ہے کہ چونکہ ان کے عمل کی اساس عدل وحق نہیں، ظلم وباطل ہے۔ اس لیے ان کے نامۂ اعمال میں شرہی شر ہوگا جس کی کوئی قیمت اللہ کے ہاں نہ ہو گی ۔ ہاں اس شر کا بدلہ ان کو وہاں ضرور دیا جائے گا۔
(1) موسیٰ (عليه السلام) جب چالیس راتوں کے لیے کوہ طور پر گئے تو پیچھے سے سامری نامی شخص نے سونے کے زیورات اکٹھے کرکے ایک بچھڑا تیار کیا جس میں اس نے جبریل (عليه السلام) کے گھوڑے کے سموں کے نیچے کی مٹی بھی، جو اس نے سنبھال کر رکھی ہوئی تھی شامل کر دی، جس میں اللہ نے زندگی کی تاثیر رکھی تھی، جس کی وجہ سے بچھڑا کچھ کچھ بیل کی آواز نکالتا تھا۔ (گو واضح کلام کرنے اور رہنمائی کرنے سے عاجز تھا جیسا کہ قرآن کے الفاظ واضح کر رہے ہیں) اس میں اختلاف ہے کہ وہ فی الواقع گوشت پوست کا بچھڑا بن گیا تھا، یا تھا وہ سونے کا ہی۔ لیکن کسی طریقے سے اس میں ہوا داخل ہوتی تو گائے، بیل کی سی آواز اس میں سے نکلتی۔ (ابن کثیر) اس آواز سے سامری نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ تمہارا معبود تو یہ ہے، موسیٰ (عليه السلام) بھول گئے ہیں اور وہ معبود کی تلاش میں کوہ طور پر گئے ہیں۔ ( یہ واقعہ سورۂ طٰہ میں آئے گا )
(1) ”سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ“ محاورہ ہے جس کے معنی نادم ہونا ہیں، یہ ندامت موسیٰ (عليه السلام) کی واپسی کے بعد ہوئی، جب انہوں نے آکر اس پر ان کی زجرو توبیخ کی، جیسا کہ سورۂ طٰہ میں ہے۔ یہاں اسے مقدم اس لیے کر دیا گیا ہے کہ ان کا فعل اور قول اکٹھا ہو جائے۔ ( فتح القدیر)