(1) یعنی تمہارے باپ آدم (عليه السلام) کو مٹی سے بنایا جو ان کی تمام اولاد کے مٹی سے پیدا ہونے کو مستلزم ہے۔ پھر اس کے بعد نسل انسانی کے تسلسل اور اس کی بقا و تحفظ کے لیے انسانی تخلیق کو نطفے سےوابستہ کردیا۔ اب ہر انسان اس نطفے سے پیدا ہوتا ہے۔ جو صلب پدر سے رحم مادر میں جا کر قرار پکڑتا ہے۔ سوائے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے، کہ ان کی پیدائش معجزانہ طور پر بغیر باپ کے ہوئی۔ جیساکہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہے اور جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔
(2) یعنی ان تمام کیفیتوں اور اطوار سے گزارنے والا وہی اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔
(3) یعنی رحم مادر میں مختلف ادوار سے گزر کر باہر آنے سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں، بعض بچپن میں، بعض جوانی میں اور بعض بڑھاپے سے قبل کہولت میں فوت ہو جاتے ہیں۔
(4) یعنی اللہ تعالیٰ یہ اس لیے کرتا ہے تاکہ جس کی جتنی عمر اللہ نے لکھ دی ہے، وہ اس کو پہنچ جائے اور اتنی زندگی دنیا میں گزار لے۔
(1) زندہ کرنا اور مارنا، اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ ایک بےجان نطفے کو مختلف اطوار سے گزار کر ایک زندہ انسان کے روپ میں ڈھال دیتا ہے۔ اور پھر ایک وقت مقرر کے بعد اس زندہ انسان کو مار کر موت کی وادیوں میں سلا دیتا ہے۔
(2) اس کی قدرت کا یہ حال ہے کہ اس کےلفظ كن (ہوجا) سے وہ چیز معرض وجود میں آجاتی ہے، جس کا وہ ارادہ کرے۔
(1) انکار و تکذیب کے لیے یا اس کے رد وابطال کے لیے۔
(2) یعنی ظہور دلائل اور وضوح حق کے باوجود وہ کسی طرح حق کو نہیں مانتے۔ یہ تعجب کا اظہار ہے۔
(1) کیا وہ آج تمہاری مدد کر سکتے ہیں؟
(2) یعنی پتہ نہیں، کہاں چلے گئےہیں، وہ ہماری مددکیا کریں گے؟
(3) اقرار کرنے کے بعد، پھر ان کی عبادت کا ہی انکار کردیں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (الأنعام:23) ”اللہ کی قسم! ہم تو کسی کی شریک ٹھہراتے ہی نہیں تھے“۔ کہتے ہیں کہ یہ بتوں کے وجود اور ان کی عبادت کا انکار نہیں ہے بلکہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کی عبادت باطل تھی کیونکہ وہاں ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے رہے جو سن سکتی تھیں، نہ دیکھ سکتی تھیں اور نقصان پہنچا سکتی تھیں نہ نفع۔ (فتح القدیر) اور اس کا دوسرا معنی واضح ہے اور یہ کہ وہ شرک کا سرے سے انکار ہی کریں گے۔
(4) یعنی ان مکذبین ہی کی طرح، اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلسل تکذیب اور کفر، یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے انسانوں کےدل سیاہ اور زنگ آلودہ ہو جاتےہیں اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے قبول حق کی توفیق سےمحروم ہو جاتے ہیں۔
(1) یعنی تمہاری یہ گمراہی اس بات کا نتیجہ ہے کہ تم کفر و تکذیب اور فسق وفجور میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ ان پر تم خوش ہوتے اور اتراتے تھے۔ اترانے میں مزید خوشی کا اظہار ہے جو تکبر کو مستلزم ہے۔
(1) کہ ہم کافروں سے انتقام لیں گے۔ یہ وعدہ جلدی بھی پورا ہو سکتا ہے یعنی دنیا میں ہی ہم ان کی گرفت کرلیں یا حسب مشیت الٰہی تاخیر بھی ہو سکتی ہے، یعنی قیامت والے دن ہم انہیں سزا دیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ یہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے۔ (2) یعنی آپ کی زندگی میں ان کو مبتلائے عذاب کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اللہ نے کافروں سے انتقام لے کر مسلمانوں کی آنکھوں کوٹھنڈا کیا، جنگ بدرمیں ستر کافر مارے گئے، 8 ہجری میں مکہ فتح ہو گیا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی پورا جزیرۂ عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا۔
(3) یعنی اگر کافر دنیوی مواخذہ و عذاب سے بچ بھی گئے تو آخر جائیں گے کہاں؟ آخر میرے پاس ہی آئینگے، جہاں ان کے لیے سخت عذاب تیار ہے۔