(1) یعنی ان سب کو جنت میں جمع فرما دے تاکہ ایک دوسرےکو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے «وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ» (الطور: 21) ”وہ لوگ جو ایمان لائےاور ان ہی کی پیروی ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ کی۔ ملا دیا ہم نے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اورہم نے ان کے عملوں میں سے کچھ کم نہیں کیا“۔ یعنی سب کو جنت میں اس طرح یکساں مرتبہ دے دیا کہ ادنیٰ کو بھی اعلیٰ مقام عطا کر دیا۔ یہ نہیں کیا کہ اعلیٰ مقام میں کمی کر کے انہیں ادنیٰ مقام پر لے آئے،بلکہ ادنیٰ کو اٹھا کر اعلیٰ کردیا اور اس کےعمل کی کمی کو اپنے فضل و کرم سے پورا کر دیا۔
(1) سیئات سے مرادیہاں عقوبات ہیں یا پھر جزا محذوف ہے یعنی انہیں آخرت کی سزاوں سے یا برائیوں سےبچانا۔
(2) یعنی آخرت کے عذاب سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہو جانا، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس لیے کہ اس جیسی کوئی کامیابی نہیں اور اس کے برابر کوئی نجات نہیں۔ ان آیات میں اہل ایمان کے لیے دو عظیم خوش خبریاں ہیں، ایک تویہ کہ فرشتے ان کے لیےغائبانہ دعاکرتے ہیں۔ (جس کی حدیث میں بڑی فضیلت واردہے) دوسری، یہ کہ اہل ایمان کے خاندان جنت میں اکٹھے ہو جائیں گے۔ جَعَلَنَا اللهُ مِنَ الَّذِينَ يُلْحِقُهُمُ اللهُ بِآبَائِهِمُ الصَّالِحِينَ۔
(1) مَقْتٌ، سخت ناراضی کو کہتے ہیں۔ اہل کفر جو اپنے کو جہنم کی آگ میں جھلستے دیکھیں گے، تو اپنے آپ پر سخت ناراض ہوں گے، اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم انکار کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ تم پر ناراض ہوتا تھا جتنا تم آج اپنے آپ پر ہو رہے ہو۔ یہ اللہ کی اس ناراضی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تم جہنم میں ہو۔
(1) جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق، دو موتوں میں سے پہلی موت تو وہ نطفہ ہے جو باپ کی پشت میں ہوتا ہے۔ یعنی اس کے وجود (ہست) سے پہلےاس کے عدم وجود (نیست) کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور دوسری موت وہ ہے جس سے انسان اپنی زندگی گزار کر ہمکنار ہوتا اور اس کے بعد قبر میں دفن ہوتا ہے اور دو زندگیوں میں سے پہلی زندگی، یہ دینوی زندگی ہے، جس کا آغاز ولادت سے اور اختتام، وفات پرہوتا ہے۔ اور دوسری زندگی وہ ہے جو قیامت والے دن قبروں سے اٹھنے کے بعد حاصل ہوگی۔ انہی دو موتوں اور دو زندگیوں کاتذکرہ، «وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ» (البقرة: 28) میں بھی کیا گیا ہے۔
(2) یعنی جہنم میں اعتراف کریں گے، جہاں اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں اور وہاں پشیمان ہوں گے جہاں پشیمانی کی کوئی حیثیت نہیں۔
(3) یہ وہی خواہش ہے جس کا تذکرہ قرآن مجیدمیں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے کہ ہمیں دوبارہ زمین پر بھیج دیا جائے، تاکہ ہم نیکیاں کما کر لائیں۔
(1) یہ ان کے جہنم سے نہ نکالےجانے کا سبب بیان فرمایا ہے کہ تم دنیا میں اللہ کی توحید کے منکر تھے اور شرک تمہیں مرغوب تھا، اس لیے اب جہنم کے دائمی عذاب کے سوا تمہارے لیے کچھ نہیں۔
(2) اسی ایک اللہ کا حکم ہے کہ اب تمہارےلیے جہنم کا عذاب ہمیشہ کےلیے ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں۔ جو عَلِيٌّ ، یعنی ان باتوں سے بلند ہے کہ اس کی ذات یا صفات میں کوئی اس جیسا ہو اور كَبِيرٌ یعنی ان باتوں سے بہت بڑا ہےکہ اس کی کوئی مثل ہو یا بیوی اور اولاد ہو یا شریک ہو۔
(1) یعنی پانی جو تمہارےلیے تمہاری روزیوں کا سبب ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اظہار آیات کو انزال رزق کے ساتھ جمع فرما دیا ہے۔ اس لیے کہ آیات قدرت کا اظہار، ادیان کی بنیاد ہے اور روزیاں ابدان کی بنیاد ہیں۔ یوں یہاں دونوں بنیادوں کو جمع فرما دیا گیا ہے۔ (فتح القدیر)۔
(2) اللہ کی اطاعت کی طرف، جس سے ان کے دلوں میں آخرت کا خوف پیدا ہوتا ہے اور احکام و فرائض الٰہی کی پابندی کرتے ہیں۔
(1) یعنی جب سب کچھ اللہ ہی اکیلا کرنے والا ہے تو کافروں کو چاہے،کتنا بھی ناگوار گزرے، صرف اسی ایک اللہ کو پکارو، اس کے لیے عبادت و اطاعت کو خالص کرتےہوئے۔
(1) رُوحٌ سے مراد وحی ہے جو وہ بندوں میں سے ہی کسی کو رسالت کے لیے چن کر، اس پر نازل فرماتا ہے، وحی کو روح سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ جس طرح روح میں انسانی زندگی کی بقا و سلامتی کا راز مضمر ہے۔ اس طرح وحی سے بھی ان انسانی قلوب میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے جو پہلے کفروشک کی وجہ سے مردہ ہوتے ہیں۔
(1) یعنی زندہ ہوکر قبروں سے باہر نکل کھڑے ہوں گے۔
(2) یہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ پوچھے گا، جب سارے انسان اس کے سامنے میدان محشر میں جمع ہوں گے، اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، اور کہے گا میں بادشاہ ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟ (صحیح بخاری، سورۂ زمر)۔
(3) جب کوئی نہیں بولے گا تو یہ جواب اللہ تعالیٰ خود ہی دے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک فرشتہ منادی کرے گا، جس کے ساتھ ہی تمام کافر اور مسلمان بیک آواز یہی جواب دیں گے۔ (فتح القدیر)۔