(1) یعنی اے اہل مصر! حضرت موسیٰ (عليه السلام) سے قبل تمہارے اسی علاقے میں، جس میں تم آباد ہو، حضرت یوسف (عليه السلام) بھی دلائل و براہین کے ساتھ آئےتھے۔ جس میں تمہارے آباواجداد کو ایمان کی دعوت دی گئی تھی یعنی جَاءَكُمْ سےمراد جَاءَ إِلَى آبَائِكُمْ ہے یعنی تمہارے آباواجدادکےپاس آئے۔
(2) لیکن تم ان پر بھی ایمان نہیں لائے اور ان کی دعوت میں شک و شبہ ہی کرتے رہے۔
(3) یعنی یوسف (عليه السلام) پیغمبر کی وفات ہو گئی۔
(4) یعنی تمہارا شیوہ چونکہ ہر پیغمبرکی تکذیب اورمخالفت ہی رہا ہے، اس لیے سمجھتے تھے کہ اب کوئی رسول ہی نہیں آئے گا، یا یہ مطلب ہے کہ رسول کا آنا یا نہ آنا، تمہارے لیے برابر ہے یا یہ مطلوب ہے کہ ایسا باعظمت انسان کہاں پیدا ہو سکتا ہے جورسالت سے سرفراز ہو۔ گویا بعد از مرگ حضرت یوسف (عليه السلام) کی عظمت کا اعتراف تھا۔ اور بہت سے لوگ ہر اہم ترین انسان کی وفات کے بعد یہی کہتے ہیں۔
(5) یعنی اس واضح گمراہی کی طرح، جس میں تم مبتلا ہو، اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو بھی گمراہ کرتا ہے جو نہایت کثرت سے گناہوں کا ارتکاب کرتا اور اللہ کے دین، اس کی وحدانیت اور اس کے وعدوں وعیدوں میں شک کرتا ہے۔
(1) یعنی اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے، اس کے باوجود اللہ کی توحید اور اس کے احکام میں جھگڑتے ہیں، جیساکہ ہر دور کے اہل باطن کا وطیرہ رہا ہے۔
(2) یعنی ان کی اس حرکت شنیعہ سے اللہ تعالیٰ ہی ناراض نہیں ہوتا، اہل ایمان بھی اس کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔
(3) یعنی جس طرح ان مجادلین کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے، اسی طرح ہر اس شخص کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے، جو اللہ کی آیتوں کے مقابلے میں تکبر اور سرکشی کا اظہار کرتا ہے، جس کے بعد معروف، ان کو معروف اور منکر، منکر نظر نہیں آتا بلکہ بعض دفعہ منکر، ان کے ہاں معروف اورمعروف، منکر قرار پاتا ہے۔
(1) یہ فرعون کی سرکشی اور تمرد کا بیان ہے کہ اس نے اپنے وزیر ہامان کو ایک بلند عمارت بنانے کا حکم دیا تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آسمان کے دروازوں تک پہنچ جائے۔ اسباب کے معنی دروازے، یا راستے کے ہیں۔ مزید دیکھیے القصص، آیت 28۔
(1) یعنی دیکھوں کہ آسمانوں پر کیاواقعی کوئی الہٰ ہے؟
(2) اس بات میں کہ آسمان پر اللہ ہےجو آسمان و زمین کا خالق اور ان کا مدبر ہے۔ یااس بات میں کہ وہ اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہے۔
(3) یعنی شیطان نے اس طرح اسے گمراہ کیے رکھا اور اس کے برے عمل اسے اچھے نظر آتے رہے۔
(4) یعنی حق اور صواب (درست) راستے سے اسے روک دیا گیا اور وہ گمراہیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہا۔
(5) تَبَابٌ۔ خسارہ، ہلاکت۔ یعنی فرعون نے جو تدبیراختیارکی، اس کا نتیجہ اس کے حق میں برا ہی نکلا۔ اور بالآخر اپنے لشکر سمیت پانی میں ڈبو دیا گیا۔
(1) فرعون کی قوم میں سے ایمان لانے والا پھر بولا۔ اور کہا کہ دعویٰ تو فرعون بھی کرتا ہے کہ میں تمہیں سیدھے راستے پرچلا رہا ہوں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرعون بھٹکا ﮨوا ہے، میں جس راستے کی نشاندہی کر رہا ہوں،وہ سیدھا راستہ ہے اوروہ وہی راستہ ہے، جس کی طرف تمہیں حضرت موسیٰ (عليه السلام) دعوت دے رہے ہیں۔
(1) جس کی زندگی چند روزہ ہے اور وہ بھی آخرت کے مقابلے میں صبح یا شام کی ایک گھڑی کے برابر۔
(2) جس کو زوال اور فنا نہیں، نہ وہاں سے انتقال اورکوچ ہوگا۔ کوئی جنت میں جائے یا جہنم میں، دونوں کی زندگیاں ابدی ہوں گی۔ ایک راحت اور آرام کی زندگی۔ دوسری، شقاوت اور عذاب کی زندگی . موت اہل جنت کو آئے گی نہ اہل جہنم کو۔
(1) یعنی برائی کی مثل ہی جزاہو گی، زیادہ نہیں۔ اوراس کے مطابق ہی عذاب ہوگا۔ جو عدل وانصاف کا آئینہ دار ہوگا۔
(2) یعنی وہ جو ایمان دار بھی ہوں گے اور اعمال صالحہ کے پابند بھی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اعمال صالحہ کے بغیر محض ایمان یا ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کی حیثیت اللہ کےہاں کچھ نہیں ہوگی، عنداللہ کامیابی کے لیے ایمان کے ساتھ عمل صالح اور عمل صالح کے ساتھ ایمان ضروری ہے۔
(3) یعنی بغیر اندازے اور حساب کے نعمتیں ملیں گی اور ان کے ختم ہونے کابﮭی کوئی اندیشہ نہیں ہوگا۔