(1) تقدیری عبارت یوں ہوگی ”فَبِنَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ“ یعنی ہم نے ان کے نقض میثاق، کفر بآیات اللہ اور قتل انبیاء وغیرہ کی وجہ سے ان پر لعنت کی یا سزا دی۔
(1) اس سے مراد یوسف نجار کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام پر بدکاری کی تہمت ہے۔ آج بھی بعض نام نہاد محققین اس بہتان عظیم کو ایک حقیقت ثابتہ باور کرانے پر تلے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یوسف نجار (نَعُوذُ بِاللهِ) حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کا باپ تھا اور یوں حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی بن باپ کے معجزانہ ولادت کا بھی انکار کرتے ہیں۔
(1) اس سے واضح ہوگیا کہ حضرت عیسی (عليه السلام) کو یہودی قتل کرنے میں کامیاب ہوسکے نہ سولی چڑھانے میں۔ جیسا کہ ان کا منصوبہ تھا۔ جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 55 کے حاشیے میں مختصر تفصیل گزر چکی ہے۔
(2) اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو یہودیوں کی سازش کا پتہ چلا توانہوں نے اپنے حواریوں کو جن کی تعداد 12 یا 17 تھی، جمع کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص میری جگہ قتل ہونے کے لئے تیار ہے؟ تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شکل و صورت میری جیسی بنا دی جائے۔ ایک نوجوان اس کے لئے تیار ہوگیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو وہاں سے آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے اس نوجوان کو لے جا کر سولی پر چڑھا دیا جسے حضرت عیسیٰ کا ہم شکل بنا دیا گیا تھا۔ یہودی یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ (عليه السلام) کو سولی دی ہے درآں حالیکہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے وہ زندہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جا چکے تھے۔(ابن کثیر و فتح القدیر)
(3) عیسیٰ (عليه السلام) کے ہم شکل شخص کو قتل کرنے کے بعد ایک گروہ تو یہی کہتا رہا کہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو قتل کردیا، جب کہ دوسرا گروہ جسے یہ اندازہ ہوگیا کہ مصلوب شخص عیسیٰ (عليه السلام) نہیں، کوئی اور ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے قتل اور مصلوب ہونے کا انکار کرتا رہا۔ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ (عليه السلام) کو آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو خود عیسائیوں کے نسطوریہ فرقے نے کہا کہ عیسیٰ (عليه السلام) جسم کے لحاظ سے تو سولی دے دیئے گئے لیکن لاہوت (خداوندی) کے اعتبار سے نہیں۔ ملکانیہ فرقے نے کہا کہ یہ قتل و صلب ناسوت اور لاہوت دونوں اعتبار سے مکمل طور پر ہوا ہے (فتح القدیر) بہرحال وہ اختلاف، تردد اورشک کاﺷکار رہے۔
(1) یہ نص صریح ہے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور متواتر صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ یہ احادیث حدیث کی تمام کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بھی وارد ہیں۔ ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول کا اور دیگر بہت سی باتوں کا تذکرہ ہے۔ امام ابن کثیر یہ تمام روایات کا ذکر کرکے آخر میں تحریر فرماتے ہیں پس یہ احادیث رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے متواتر ہیں۔ ان کے راویوں میں حضرت ابوہریرۃ، حضرت عبداللہ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابوامامہ، نواس بن سمعان، عبداللہ بن عمرو بن العاص، مجمع بن جاریہ، ابی سریحہ اور حذیفہ بن اسید (رضي الله عنهم) ہیں۔ ان احادیث میں آپ کے نزول کی صفت اور جگہ کا بیان ہے، آپ (عليه السلام) دمشق میں منارہ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لئے اقامت ہو رہی ہوگی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ معاف کردیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہوجائیں گے، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہوگا اور یاجوج و ماجوج کا ظہور وفساد بھی آپ کی موجودگی میں ہوگا، بالآخر آپ ہی کی بددعا سے ان کی ہلاکت واقع ہوگی۔
(2) وہ زبردست اور غالب ہے، اس کے ارادہ اور مشیت کو کوئی ٹال نہیں سکتا اور جو اس کی پناہ میں آجائے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور وہ حکیم بھی ہے، وہ جو فیصلہ بھی کرتا ہے، حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔
(1) ”قَبْلَ مَوْتِهِ“ میں ”ہ“ کی ضمیر کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک اہل کتاب (نصاریٰ) ہیں اور مطلب یہ کہ ہر عیسائی موت کے وقت حضرت عیسییٰ پر ایمان لے آتا ہے۔ گو موت کے وقت کا ایمان نافع نہیں۔ لیکن سلف اور اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مرجع حضرت عیسیٰ (عليه السلام) ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جب ان کا دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کرکے اسلام کا بول بالا کریں گے تو اس وقت جتنے یہودی اور عیسائی ہوں گے ان کو بھی قتل کر ڈالیں گے اور روئے زمین پر مسلمان کے سوا کوئی اور باقی نہ بچے گا اس طرح اس دنیا میں جتنے بھی اہل کتاب حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے والے ہیں وہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی موت سے پہلے پہلے ان پر ایمان لاکر اس دنیا سے گزر چکیں گے۔ خواہ ان کا ایمان کسی بھی ڈھنگ کا ہو۔ صحیح احادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔ چنانچہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ضرور ایک وقت آئے گا کہ تم میں ابن مریم حاکم و عادل بن کر نازل ہوں گے، وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ اٹھا دیں گے اور مال کی اتنی بہتات ہو جائے گی کہ کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ (یعنی صدقہ خیرات لینے والا کوئی نہیں ہوگا) حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا“۔ پھر حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے اگر تم چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو ”وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ“ (صحيح بخاري- كتاب الأنبياء) یہ احادیث اتنی کثرت سے آئی ہیں کہ انہیں تواتر کا درجہ حاصل ہے اور انہی متواتر صحیح روایات کی بنیاد پر اہل سنت کے تمام مکاتب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی (عليه السلام) آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں ان کا نزول ہوگا اور دجال کا اور تمام ادیان کا خاتمہ فرما کر اسلام کو غالب فرمائیں گے۔ یاجوج ماجوج کا خروج بھی حضرت عیسیٰ (عليه السلام) ہی کی موجودگی میں ہوگا اور حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی دعا کی برکت سے ہی اس فتنے کا بھی خاتمہ ہوگا جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔
(2) یہ گواہی اپنی پہلی زندگی کے حالات سے متعلق ہوگی۔ جیسا کہ سورۂ مائدہ کے آخر میں وضاحت ہے ”وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ“ میں جب تک ان میں موجود رہا، ان کے حالات سے باخبر رہا۔
(1) یعنی ان کے ان جرائم و معاصی کی وجہ سے بطور سزا بہت سی حلال چیزیں ہم نے ان پر حرام کردی تھیں۔ (جن کی تفصیل سورۃ الانعام: 146 میں ہے)
(1) ان سے مراد عبداللہ بن سلام (رضي الله عنه) وغیرہ ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے تھے۔
(2) ان سے مراد بھی وہ اہل ایمان ہیں جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے یا پھر مہاجرین و انصار مراد ہیں۔ یعنی شریعت کا پختہ علم رکھنے والے اور کمال ایمان سے متصف لوگ ان معاصی کے ارتکاب سے بچتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔
(3) اس سے مراد زکوٰۃ اموال ہے یا زکوٰۃ نفوس یعنی اپنے اخلاق و کردار کی تطہیر اور ان کا تزکیہ کرنا، یا دونوں ہی مراد ہیں۔
(4) یعنی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ نیز بعث بعد الموت اور عملوں پر جزا وسزا کا یقین رکھتے ہیں۔