Kilniojo Korano reikšmių vertimas - Vertimas į urdu k. - Muchamed Džonakri

Puslapio numeris:close

external-link copy
148 : 4

لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا ۟

برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کی اجازت ہے(1) اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا جانتا ہے۔ info

(1) شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو، بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ، الا یہ کہ کوئی دینی مصلحت ہو، اسی طرح کھلے عام اور علی الا علان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا اسے برسرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے اور اس کی وجہ سے اس برائی کا جرم دوچند بلکہ دہ چند، بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن کے الفاظ مذکورہ دونوں قسم کی برائیوں کے اظہار سے ممانعت کو شامل ہیں اور اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کسی شخص کو اس کی کردہ یا ناکردہ حرکت پر برا بھلا کہا جائے۔ البتہ اس سے ایک استثنا ہے کہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو۔ جس سے ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شاید وہ ظلم سے باز آجائے یا اس کی تلافی کی سعی کرے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ لوگ اس سے بچ کر رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اس سے فرمایا: ”تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو“ اس نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جو بھی گزرتا اس سے پوچھتا، وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویے کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر رہ گزر اس پر لعنت ملامت کرتا۔ پڑوسی نے یہ صورتحال دیکھ کر معذرت کرلی اور آئندہ کے لئے ایذا نہ پہنچانے کا فیصلہ کرلیا اور اس سے اپنا سامان اندر رکھنے کی التجا کی۔ (سنن ابی داود، کتاب الادب)

التفاسير:

external-link copy
149 : 4

اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا ۟

اگر تم کسی نیکی کو علانیہ کرو یا پوشیده، یا کسی برائی سے درگزر کرو(1) ، پس یقیناً اللہ تعالیٰ پوری معافی کرنے واﻻ اور پوری قدرت واﻻ ہے۔ info

(1) کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم یا برائی کا ارتکاب کرے تو شریعت نے اس حد تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے۔ جس حد تک اس پر ظلم ہوا ہے۔ ”الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالا، فَعَلَى الْبَادِي، مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُومُ“ (صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب النهي من السباب حديث نمبر4587) ”آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دو شخص جو کچھ کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے (بشرطیکہ) مظلوم (یعنی جسے پہلے گالی دی گئی اور اس نے جواب میں گالی دی) زیادتی نہ کرے۔“ لیکن بدلہ لینے کی اجازت کے ساتھ ساتھ معافی اور درگزر کو زیادہ پسند فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود باوجود قدرت کاملہ کے عفوودرگزر سے کام لینے والا ہے۔ اس لئے فرمایا ”وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ“ (الشوریٰ: 40) برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی ہے، مگر جو درگزر کرے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور حدیث میں بھی ہے ”معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ عزت میں اضافہ فرماتا ہے۔“ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب استحباب العفو والتواضع)

التفاسير:

external-link copy
150 : 4

اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ— وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا ۙ۟

جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے اور اس کے بین بین کوئی راه نکالیں۔ info
التفاسير:

external-link copy
151 : 4

اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا ۚ— وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا ۟

یقین مانو کہ یہ سب لوگ اصلی کافر ہیں(1) ، اور کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے۔ info

(1) اہل کتاب کے متعلق پہلے گزر چکا ہے کہ وہ بعض نبیوں کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں۔ جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) و حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) اور عیسائیوں نے حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء (عليهم السلام) کے درمیان تفریق کرنے والے یہ پکے کافر ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
152 : 4

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَلَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰٓىِٕكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۟۠

اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے تمام پیغمبروں پر ایمان ﻻتے ہیں اور ان میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے، یہ ہیں جنہیں اللہ ان کو پورا ﺛواب دے گا(1) اور اللہ بڑی مغفرت واﻻ بڑی رحمت واﻻ ہے۔ info

(1) یہ ایمانداروں کا شیوہ بتلایا کہ وہ سب انبیاء (عليهم السلام) پر ایمان رکھتے ہیں۔ جس طرح مسلمان ہیں کہ وہ کسی بھی نبی کا انکار نہیں کرتے۔ اس آیت سے بھی ”وحدت ادیان“ کی نفی ہوتی ہے جس کے قائلین کے نزدیک رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ اور وہ ان غیر مسلموں کو بھی نجات یافتہ سمجھتے ہیں جو اپنے تصورات کے مطابق ایمان بااللہ رکھتے ہیں۔ لیکن قرآن کی اس آیت نے واضح کردیا کہ ایمان باللہ کے ساتھ رسالت محمدیہ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ اگر اس آخری رسالت کا انکار ہوگا تو اس انکار کےساتھ ایمان باللہ غیر معتبر اور نامقبول ہے۔ (مزید دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر62 کا حاشیہ)

التفاسير:

external-link copy
153 : 4

یَسْـَٔلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤی اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ— ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ ۚ— وَاٰتَیْنَا مُوْسٰی سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا ۟

آپ سے یہ اہل کتاب درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب ﻻئیں(1) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تو انہوں نے اس سے بہت بڑی درخواست کی تھی کہ ہمیں کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کو دکھا دے، پس ان کے اس ﻇلم کے باعﺚ ان پر کڑاکے کی بجلی آ پڑی پھر باوجودیکہ ان کے پاس بہت دلیلیں پہنچ چکی تھیں انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا، لیکن ہم نے یہ بھی معاف فرما دیا اور ہم نے موسیٰ کو کھلا غلبہ (اور صریح دلیل) عنایت فرمائی۔ info

(1) یعنی جس طرح موسیٰ (عليه السلام) کوہ طور پر گئے اور تختیوں پر لکھی ہوئی تورات لے کر آئے، اسی طرح آپ بھی آسمان پر جا کر لکھا ہوا قرآن مجید لے کر آئیں۔ یہ مطالبہ محض عناد، جحود اور تعنت کی بنا پر تھا۔

التفاسير:

external-link copy
154 : 4

وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّوْرَ بِمِیْثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِی السَّبْتِ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا ۟

اور ان کا قول لینے کے لئے ہم نے ان کے سروں پر طور پہاڑ ﻻ کھڑا کردیا اور انہیں حکم دیا کہ سجده کرتے ہوئے دروازے میں جاؤ اور یہ بھی فرمایا کہ ہفتہ کے دن میں تجاوز نہ کرنا اور ہم نے ان سے سخت سے سخت قول وقرار لئے۔ info
التفاسير: