Kilniojo Korano reikšmių vertimas - Vertimas į urdu k. - Muchamed Džonakri

Puslapio numeris:close

external-link copy
52 : 4

اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ ؕ— وَمَنْ یَّلْعَنِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ نَصِیْرًا ۟ؕ

یہی وه لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور جسے اللہ تعالیٰ لعنت کر دے، تو اس کا کوئی مددگار نہ پائے گا۔ info
التفاسير:

external-link copy
53 : 4

اَمْ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا ۟ۙ

کیا ان کا کوئی حصہ سلطنت میں ہے؟ اگر ایسا ہو تو پھر یہ کسی کو ایک کھجور کی گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیں گے۔(1) info

(1) یہ استفہام انکاری ہے یعنی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اگر اس میں ان کا کچھ حصہ ہوتا تویہ یہود اتنے بخیل ہیں کہ لوگوں کو بالخصوص حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کو اتنا بھی نہ دیتے جس سے کھجور کی گٹھلی کا شگاف ہی پر ہو جاتا۔ ”نَقِيرٌ“ اس نقطے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے۔ (ابن کثیر)

التفاسير:

external-link copy
54 : 4

اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ— فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا ۟

یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے(1) ، پس ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دی ہے اور بڑی سلطنت بھی عطا فرمائی ہے۔ info

(1) ”أم“ (یا) ”بل“ کے معنی میں بھی ہو سکتا ہے یعنی بلکہ یہ اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو چھوڑ کردوسروں میں نبی (یعنی آخری نبی) کیوں بنایا؟ نبوت اللہ کا سب سے بڑا فضل ہے۔

التفاسير:

external-link copy
55 : 4

فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِهٖ وَمِنْهُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْهُ ؕ— وَكَفٰی بِجَهَنَّمَ سَعِیْرًا ۟

پھر ان میں سے بعض نے تو اس کتاب کو مانا اور بعض اس سے رک گئے(1) ، اور جہنم کا جلانا کافی ہے۔ info

(1) یعنی بنو اسرائیل کو، جو حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی ذریت اور آل میں سے ہیں، ہم نے نبوت بھی دی اور بڑی سلطنت وبادشاہی بھی۔ پھر بھی یہود کے یہ سارے لوگ ان پر ایمان نہیں لائے۔ کچھ ایمان لائے اور کچھ نے اعراض کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) اگر یہ آپ کی نبوت پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو کوئی انوکھی بات نہیں ہے، ان کی تو تاریخ ہی نبیوں کی تکذیب سے بھری ہوئی ہے حتیٰ کہ اپنی نسل کے نبیوں پر بھی یہ ایمان نہیں لائے۔ بعض نے ”آمَنَ بِهِ“ میں ”ھا“ کا مرجع نبی (صلى الله عليه وسلم) کو بتلایا ہے یعنی ان یہود میں سے کچھ نبی (صلى الله عليه وسلم) پر ایمان لائے اور کچھ نے انکارکیا۔ ان منکرین نبوت کا انجام جہنم ہے۔

التفاسير:

external-link copy
56 : 4

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًا ؕ— كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِیْمًا ۟

جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا، انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے(1) جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وه عذاب چکھتے رہیں(2)، یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت واﻻ ہے۔ info

(1) یعنی جہنم میں اہل کتاب کے منکرین ہی نہیں جائیں گے، بلکہ دیگر تمام کفار کا ٹھکانہ بھی جہنم ہی ہے۔
(2) یہ جہنم کے عذاب کی سختی، تسلسل اور دوام کا بیان ہے۔ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) سے منقول بعض آثار میں بتلایا گیا ہے۔ کھالوں کی یہ تبدیلی دن میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں مرتبہ عمل میں آئے گی اور مسند احمد کی روایت کی رو سے جہنمی جہنم میں اتنے فربہ ہو جائیں گے کہ ان کے کانوﮞ کی لو سے پیچھے گردن تک کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت جتنا ہوگا، ان کی کھال کی موٹائی ستر بالشت اور داڑھ احد پہاڑ جتنی ہوگی۔

التفاسير:

external-link copy
57 : 4

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا ؕ— لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ؗ— وَّنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا ۟

اور جو لوگ ایمان ﻻئے اور شائستہ اعمال کئے(1) ہم عنقریب انہیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں وه ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، ان کے لئے وہاں صاف ستھری بیویاں ہوں گی اور ہم انہیں گھنی چھاؤں (اور پوری راحت) میں لے جائیں گے۔(2) info

(1) کفار کے مقابلے میں اہل ایمان کے لئے جو ابدی نعمتیں ہیں، ان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن وہ اہل ایمان جو اعمال صالحہ کی دولت سے مالا مال ہوں گے، جَعَلَنَا اللهُ مِنْهُمْ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر جگہ ایمان کے ساتھ اعمال صالح کا ذکر کرکے واضح کر دیا کہ ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایمان، عمل صالح کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے پھول ہو مگر خوشبو کے بغیر، درخت ہولیکن بے ثمر۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خیرالقرون کے دوسرے مسلمانوں نے اس نکتے کو سمجھ لیا تھا۔ چنانچہ ان کی زندگیاں ایمان کے پھل، اعمال صالحہ سے مالا مال تھیں۔ اس دور میں بے عمل یا بدعملی کے ساتھ ایمان کا تصور ہی نہیں تھا۔ اس کے برعکس آج ایمان صرف زبانی جمع خرچ کا نام رہ گیا ہے۔ اعمال صالحہ سے دعوے داران ایمان کا دامن خالی ہے۔ هَدَانَا اللهُ تَعَالَى، اسی طرح اگر کوئی شخص ایسے عمل کرتا ہے جو اعمال صالحہ کی ذیل میں آتے ہیں۔ مثلا راست بازی، امانت ودیانت، ہمدردی وغم گساری اور دیگر اخلاقی خوبیاں۔ لیکن ایمان کی دولت سے یہ محروم ہے تو اس کے یہ اعمال، دنیا میں تو اس کی شہرت ونیک نامی کا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اللہ کی بارگاہ میں ان کی کوئی قدروقیمت نہ ہوگی اس لئے کہ ان کا سر چشمہ ایمان نہیں ہے جو اچھے اعمال کو عنداللہ بار آور بناتا ہے بلکہ صرف اور صرف دینوی مفادات یا قومی اخلاق وعادات ان کی بنیاد ہے۔
(2) گھنی، گہری، عمدہ اور پاکیزہ چھاؤں جس کو ترجمہ میں پوری راحت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے جنت میں ایک درخت ہے جس کا سایہ اتنا ہے کہ ایک سوار سو سال میں بھی اسے طے نہیں کر سکے گا یہ شجرۃ الخلد ہے۔ (مسند أحمد،جلد 2 ص 455، وأصله في البخاري، كتاب بدء الخلق باب نمبر ٨ما جاء في صفة الجنة وأنها مخلوقة)

التفاسير:

external-link copy
58 : 4

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَهْلِهَا ۙ— وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ۟

اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ!(1) اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو!(2) یقیناً وه بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے(3)۔ بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے، دیکھتا ہے۔ info

(1) اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کی شان میں، جو خاندانی طور پر خانہ کعبہ کے دربان وکلید بردار چلے آرہے تھے، نازل ہوئی ہے۔ مکہ فتح ہونے کے بعد جب رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو طواف وغیرہ کے بعد آپ (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت عثمان بن طلحہ (رضي الله عنه) کو جو صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہو چکے تھے، طلب فرمایا اور انہیں خانہ کعبہ کی چابیاں دے کر فرمایا یہ تمہاری چابیاں ہیں آج کا دن وفا اور نیکی کا دن ہے (ابن كثير) آیت کا یہ سبب نزول اگرچہ خاص ہے لیکن اس کا حکم عام ہے اور اس کے مخاطب عوام اور حکام دونوں ہیں۔ دونوں کو تاکید ہے کہ امانتیں انہیں پہنچاؤ جو امانتوں کے اہل ہیں۔ اس میں ایک تو وہ امانتیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی کے پاس رکھوائی ہوں۔ ان میں خیانت نہ کی جائے بلکہ یہ بحفاظت عندالطلب لوٹا دی جائیں۔ دوسرے عہدے اور مناصب اہل لوگوں کو دیئے جائیں، محض سیاسی بنیاد یا نسلی ووطنی بنیاد یا قرابت وخاندان کی بنیاد یا کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر عہدہ ومنصب دینا اس آیت کے خلاف ہے۔
(2) اس میں حکام کو بطور خاص عدل وانصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے ”حاکم جب تک ظلم نہ کرے، اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے تو اللہ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیتا ہے“۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام)
(3) یعنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنا اور عدل وانصاف مہیا کرنا۔

التفاسير:

external-link copy
59 : 4

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ— فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ؕ— ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا ۟۠

اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی(1) ۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے(2)۔ info

(1) ”اولو الامر“ (اپنے میں سے اختیار والے) سے مراد بعض کے نزدیک امرا وحکام اور بعض کے نزدیک علماء وفقہاء ہیں مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے کیونکہ ”أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ“ ( الاعراف: 54) خبردار مخلوق بھی اسی کی ہے، حکم بھی اسی کا ہے ”إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ“ (يوسف: 40) حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔ لیکن چونکہ رسول (صلى الله عليه وسلم) منشاء الٰہی ہی کا مظہر اور اس کی مرضیات کا نمائندہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول (صلى الله عليه وسلم) کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا اور فرمایا کہ رسول (صلى الله عليه وسلم) کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ ”مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ“ (النساء: 80) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حدیث بھی اسی طرح دین کا ماخذ ہے جس طرح قرآن کریم۔ تاہم امراء وحکام کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ کیونکہ وہ یا تو اللہ اور اس کے رسول (صلى الله عليه وسلم) کے احکام کا نفاذ کرتے ہیں یا امت کے اجتماعی مصالح کا انتظام اور نگہداشت کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امرا وحکام کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے اللہ ورسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کے ساتھ۔ اسی لئے ”أَطِيعُوا اللهَ“ کے بعد ”أَطِيعُوا الرَّسُولَ“ تو کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں لیکن ”أَطِيعُوا أُولِي الأَمْر“ ِنہیں کہا کیونکہ أُولِي الأَمْرِکی اطاعت مستقل نہیں اور حدیث میں بھی کہا گیا ہے ”لا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيةِ الْخَالِقِ“ (وقال الألباني حديث صحيح- مشكاة نمبر 3696، في لفظ لمسلم: ”لا طاعة في معصية الله“، كتاب الإمارة باب وجوب طاعة الأمر في غير معصية حديث نمبر 1840، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ) (صحيح بخاري كتاب الأحكام باب نمبر 4) ”السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً“ معصیت میں اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہے۔ یہی حال علماء وفقہاء کا بھی ہے۔ (اگر اولو الامر میں ان کو بھی شامل کر لیا جائے) یعنی ان کی اطاعت اس لئے کرنی ہوگی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام وفرمودات بیان کرتے ہیں اور اس کے دین کی طرف ارشاد وہدایت اور رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علماء وفقہاء بھی دینی امور ومعاملات میں حکام کی طرح یقیناً مرجعِ عوام ہیں۔ لیکن ان کی اطاعت بھی صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ عوام کو صرف اللہ اور اس کے رسول (صلى الله عليه وسلم) کی بات بتلائیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں تو عوام کے لئے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں بلکہ انحراف کی صورت میں جانتے بوجھتے ان کی اطاعت کرنا سخت معصیت اور گناہ ہے۔
(2) اللہ کی طرف لوٹانے سے مراد، قرآن کریم اور الرسول (صلى الله عليه وسلم) سے مراد اب حدیث رسول ہے۔ یہ تنازعات کے ختم کرنے کے لئے ایک بہترین اصول بتلا دیا گیا ہے۔ اس اصول سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تیسری شخصیت کی اطاعت واجب نہیں۔ جس طرح تقلید شخصی یا تقلید معین کے قائلین نے ایک تیسری اطاعت کو واجب قرار دے رکھا ہے اور اسی تیسری اطاعت نے، جو قرآن کی اس آیت کے صریح مخالف ہے، مسلمانوں کو امت متحدہ کی بجائے امت منتشرہ بنا رکھا ہے اور اس کے اتحاد کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔

التفاسير: