(1) اس قتل ناحق کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کی قدر وقیمت کو واضح کرنے کے لئے بنو اسرائیل پر یہ حکم نازل فرمایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ کے ہاں انسانی خون کی کتنی اہمیت اور تکریم ہے اور یہ اصول صرف بنی اسرائیل ہی کے لئے نہیں تھا، اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی یہ اصول ہمیشہ کے لئے ہے۔ سلیمان بن ربعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری سے پوچھا یہ آیت ہمارے لئے بھی ہے جس طرح بنو اسرائیل کے لئے تھی؟ انہوں نے فرمایا: ”ہاں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، بنواسرائیل کے خون اللہ کے ہاں ہمارے خونوں سے زیادہ قابل احترام نہیں تھے“ (تفسیر ابن کثیر)
(2) اس میں یہود کو زجروتوبیخ ہے کہ ان کے پاس انبیاء دلائل وبراہین لے کر آتے رہے۔ لیکن ان کا رویہ ہمیشہ حد سے تجاوز کرنے والا ہی رہا۔ اس میں گویا نبی (صلى الله عليه وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ آپ کو قتل کرنے اور نقصان پہنچانے کی جو سازشیں کرتے رہتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ان کی ساری تاریخ ہی مکروفساد سے بھری ہوئی ہے۔ آپ بہرحال اللہ پر بھروسہ رکھیں جو خیر الماکرین ہے۔ تمام سازشوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
(1) اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ عکل اور عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی تو نبی (صلى الله عليه وسلم) نے انہیں مدینہ سے باہر، جہاں صدقے کے اونٹ تھے، بھیج دیا کہ ان کا دودھ اور پیشاب پیو، اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے گا۔ چنانچہ چند روز میں وہ ٹھیک ہوگئے لیکن اس کے بعد انہوں نے اونٹوں کے رکھوالے اور چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹ ہنکا کر لے گئے۔ جب نبی (صلى الله عليه وسلم) کو اس امر کی اطلاع ملی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے جو انہیں اونٹوں سمیت پکڑ لائے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے ان کے ہاتھ پیر مخالف جانب سے کاٹ دالے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروائیں، (کیونکہ انہوں نے بھی چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا) پھر انہیں دھوپ میں ڈال دیا گیا حتیٰ کہ وہیں مر گئے۔ صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ انہوں نے چوری بھی کی، قتل بھی کیا، ایمان لانے کے بعد کفر بھی کیا اور اللہ ورسول کے ساتھ محاربہ بھی۔ ( صحيح بخاري كتاب الديات، والطب والتفسير- صحيح مسلم كتاب القسامة) یہ آیت محاربہ کہلاتی ہے۔ اس کا حکم عام ہے یعنی مسلمانوں اور کافروں دونوں کو شامل ہے۔ محاربہ کا مطلب ہے۔ کسی منظم اور مسلح جتھے کا اسلامی حکومت کے دائرے میں یا اس کے قریب صحرا وغیرہ میں راہ چلتے قافلوں اور افراد اور گروہوں پر حملے کرنا، قتل وغارت گری کرنا، سلب ونہب، اغوا اور آبروریزی کرنا وغیرہ اس کی جو سزائیں بیان کی گئی ہیں، امام (خلیفۂ وقت) کو اختیار ہے کہ ان میں سے جو سزا مناسب سمجھے، دے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اگر محاربین نے قتل وسلب کیا اور دہشت گردی کی تو انہیں قتل اور سولی کی سزا دی جائے گی اور جس نے صرف قتل کیا، مال نہیں لیا، اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے قتل کیا اور مال بھی چھینا، اس کا ایک دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں کاٹ دیا جائے گا۔ اور جس نے نہ قتل کیا نہ مال لیا، صرف دہشت گردی کی اسے جلاوطن کردیا جائے گا۔ لیکن امام شوکانی فرماتے ہیں پہلی بات صحیح ہے کہ سزا دینے میں امام کو اختیار حاصل ہے۔ (فتح القدیر )
(1) یعنی گرفتار ہونے سے پہلے اگر وہ توبہ کرکے اسلامی حکومت کی اطاعت کا اعلان کردیں تو پھر انہیں معاف کردیا جائے گا، مذکورہ سزائیں نہیں دی جائیں گی۔ لیکن پھر اس امر میں اختلاف ہےکہ سزاؤں کی معافی کے ساتھ ا نہوں نے قتل کر کے یا مال لوٹ کر یا آبروریزی کرکے بندوں، پر جو دست درازی کی یہ جرائم بھی معاف ہوجائیں گے یا ان کا بدلہ لیا جائے گا، بعض علماء کے نزدیک یہ معاف نہیں ہوں گے بلکہ ان کا قصاص لیا جائے گا۔ امام شوکانی اور امام ابن کثیر کا رحجان اس طرف ہے کہ مطلقاً انہیں معاف کردیا جائے گا اور اسی کو ظاہر آیت کا مقتضی بتلایا ہے۔ البتہ گرفتاری کے بعد توبہ سے جرائم معاف نہیں ہوں گے۔ وہ مستحق سزا ہوں گے۔ (فتح القدیر وابن کثیر)
(1) وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔ ”اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو“ کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجائے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں: ”إِنَّ الْوَسِيلَةَ - الَّتِي هِيَ الْقُرْبَةُ - تَصْدُقُ عَلَى التَّقْوَى وَعَلَى غَيْرِهَا مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ، الَّتِي يَتَقَرَّبُ الْعِبَادُ بِهَا إِلَى رَبِّهِمْ“ (وسیلہ جو قربت کے معنی میں ہے، تقویٰ اور دیگر خصال خیر پر صادق آتا ہے جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں) اسی طرح منہیات ومحرمات کے اجتناب سے بھی اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے منہیات ومحرمات کا ترک بھی قرب الٰہی کا وسیلہ ہے۔ لیکن جاہلوں نے اس حقیقی وسیلے کو چھوڑ کر قبروں میں مدفون لوگوں کو اپنا وسیلہ سمجھ لیا ہے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کو عطا فرمایا جائے گا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو اذان کے بعد میرے لئے یہ دعائے وسیلہ کرے گا وہ میری شفاعت کا مستحق ہوگا“۔ (صحيح بخاري- كتاب الأذان، صحيح مسلم، كتاب الصلاة) دعائے وسیلہ جو اذان کے بعد پڑھنی مسنون ہے: ”اللَّهُمَّ! رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاةِ الْقَائِمَةِ؛ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتهُ“.
(1) حدیث میں آتا ہے کہ ایک جہنمی کو جہنم سے نکال کر اللہ کی بارگارہ میں پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا ”تو نے اپنی آرام گاہ کیسی پائی؟“، وہ کہے گا بد ترین آرام گاہ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا ”کیا تو زمین بھر سونا فدیہ دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرنا پسند کرے گا؟“ وہ اثبات میں جواب دے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ”میں نے تو دنیا میں اس سے بھی بہت کم کا تجھ سے مطالبہ کیا تھا تو نے وہاں اس کی پروا نہیں کی“، اور اسے دوبارہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحيح مسلم، صفة القيامة، صحيح بخاري، كتاب الرقاق والأنبياء)