क़ुरआन के अर्थों का अनुवाद - उर्दू अनुवाद - मुहम्मद जूनागढ़ी

पृष्ठ संख्या:close

external-link copy
10 : 5

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ ۟

اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہمارے احکام کو جھٹلایا وه دوزخی ہیں۔ info
التفاسير:

external-link copy
11 : 5

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ ۚ— وَاتَّقُوا اللّٰهَ ؕ— وَعَلَی اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۟۠

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا ہے اسے یاد کرو جب کہ ایک قوم نے تم پر دست درازی کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا(1) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ info

(1) اس کی شان نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان کئے ہیں۔ مثلاً اس اعرابی کا واقعہ کہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ایک سفر سے واپسی پر ایک درخت کے سائے میں آرام فرما تھے، تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی۔ اس اعرابی نے تلوار پکڑ کر آپ (صلى الله عليه وسلم) پر سونت لی اور کہنے لگا۔ اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے بلا تامل فرمایا ”اللہ“ (یعنی اللہ بچائے گا) یہ کہنا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) اور آپ کے اصحاب کے خلاف، جب کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) وہاں تشریف فرما تھے، دھوکہ اور فریب سے نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی تھی، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کوبچایا۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی سے جو دو عامری شخص قتل ہوگئے تھے، ان کی دیت کی ادائیگی میں یہودیوں کے قبیلے بنونضیر سے حسب معاہدہ جو تعاون لینا تھا، اس کے لئے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) اپنے رفقا سمیت وہاں تشریف لے گئے اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے یہ سازش تیار کی کہ اوپر سے چکی کا پتھر آپ (صلى الله عليه وسلم) پر گرا دیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ممکن ہے کہ ان سارے ہی واقعات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ہو۔ کیونکہ ایک آیت کے نزول کے کئی اسباب و عوامل ہوسکتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر، ایسرالتفاسیر و فتح القدیر)

التفاسير:

external-link copy
12 : 5

وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ۚ— وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ؕ— وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْ ؕ— لَىِٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۚ— فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ ۟

اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لیا(1) اور انہی میں سے باره سردار ہم نے مقرر فرمائے(2) اور اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوٰة دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں، اب اس عہد وپیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وه یقیناً راه راست سے بھٹک گیا۔ info

(1) جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہ عہد اور میثاق پورا کرنے کی تاکید کی جو اس نے حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کے ذریعے سے لیا اور انہیں قیام حق اور شہادت عدل کا حکم دیا اور انہیں وہ انعامات یاد کرائے جو ان پر ظاہراً وباطنا ہوئے اور بالخصوص یہ بات کہ انہیں حق و صواب کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی تو اب اس مقام پر اس عہد کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا اور جس میں وہ ناکام رہے۔ یہ گویا بالواسطہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ تم بھی کہیں بنو اسرائیل کی طرح عہد ومیثاق کو پامال کرنا شروع نہ کر دینا۔
(2) اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) جبابرہ سے قتال کے لئے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں پر بارہ نقیب مقرر فرما دیئے تاکہ وہ انہیں جنگ کے لئے تیار بھی کریں، ان کی قیادت و رہنمائی بھی کریں اور دیگر معاملات کا انتظام بھی کریں۔

التفاسير:

external-link copy
13 : 5

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِیَةً ۚ— یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ ۙ— وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ ۚ— وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآىِٕنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۟

پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر اپنی لعنت نازل فرمادی اور ان کے دل سخت کردیئے کہ وه کلام کو اس کی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں(1) اور جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے(2)، ان کی ایک نہ ایک خیانت پر تجھے اطلاع ملتی ہی رہے گی(3) ہاں تھوڑے سے ایسے نہیں بھی ہیں(4) پس توانہیں معاف کرتا جا اور درگزر کرتا ره(5)، بےشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ info

(1) یعنی اتنے انتظامات اور عہد مواعید کے باوجود بنو اسرائیل نے عہد شکنی کی، جس کی بنا پر وہ لعنت الٰہی کے مستحق بنے۔ اس لعنت کے دنیوی نتائج یہ سامنے آئے کہ ایک، ان کے دل سخت کردیئے گئے جس سے ان کے دل اثر پذیری سے محروم ہوگئے اور انبیاء کے وعظ و نصیحت ان کے لئے بےکار ہوگئے، دوسرے، یہ کہ وہ کلمات الٰہی میں تحریف کرنے لگ گئے۔ یہ تحریف لفظی اور معنوی دونوں طرح کی ہوتی تھی جو اس بات کی دلیل تھی کہ ان کی عقل و فہم میں کجی آگئی ہے اور ان کی جسارتوں میں بھی بےپناہ اضافہ ہوگیا ہے کہ اللہ کی آیتوں تک میں تصرف کرنے سے انہیں گریز نہیں۔ بدقسمتی اس قساوت قلبی اور کلمات الٰہی میں تحریف سے امت محمدیہ کے افراد بھی محفوظ نہیں رہے۔ مسلمان کہلانے والے عوام نہیں خواص بھی، جہلاء ہی نہیں علماء بھی، ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وعظ و نصیحت اور احکام الٰہی کی یاد دہانی ان کے لئے بےکار ہے، وہ سن کر ان سے ذرا اثر قبول نہیں کرتے اور جن غفلتوں اور کوتاہیوں کا وہ شکار ہیں، ان سے تائب نہیں ہوتے۔ اسی طرح اپنی بدعات، خودساختہ مزعومات اور اپنے تاویلات باطلہ کے اثبات کے لئے کلام الٰہی میں تحریف کر ڈالتے ہیں۔
(2) یہ تیسرا نتیجہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کرنے میں انہیں کوئی رغبت اور دلچسپی نہیں رہی بلکہ بےعملی اور بدعملی ان کا شعار بن گئی اور وہ پستی کے اس مقام پر پہنچ گئے کہ ان کے دل سلیم رہے نہ ان کی فطرت مستقیم۔
(3) یعنی شذر، خیانت اور مکر، ان کے کردار کا جزو بن گیا ہے جس کے نمونے ہر وقت آپ کے سامنے آتے رہیں گے۔
(4) یہ تھوڑے سے لوگ وہی ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے تھے اور ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔
(5) عفو و درگزر کا یہ حکم اس وقت دیا گیا تھا، جب لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعد میں اس کی جگہ حکم دیا گیا «قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ» (التوبہ: 29)”ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے“۔ بعض کے نزدیک عفو و درگزر کا یہ حکم منسوخ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ایک اہم حکم ہے، حالات و ظروف کے مطابق اسے بھی اختیار کیا جاسکتا ہے اور اس سے بھی بعض دفعہ وہ نتائج حاصل ہوجاتے ہیں جن کے لئے قتال کا حکم ہے۔

التفاسير: