क़ुरआन के अर्थों का अनुवाद - उर्दू अनुवाद - मुहम्मद जूनागढ़ी

पृष्ठ संख्या:close

external-link copy
104 : 5

وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا ؕ— اَوَلَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْـًٔا وَّلَا یَهْتَدُوْنَ ۟

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا، کیا اگر چہ ان کے بڑے نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں۔ info
التفاسير:

external-link copy
105 : 5

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚ— لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ ؕ— اِلَی اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۟

اے ایمان والوں! اپنی فکر کرو، جب تم راه راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراه رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں(1) ۔ اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وه تم سب کو بتلا دے گا جو کچھ تم سب کرتے تھے۔ info

(1) بعض لوگوں کے ذہن میں ظاہری الفاظ سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ اپنی اصلاح اگر کرلی جائے تو کافی ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ضروری نہیں ہے۔ لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے کیونکہ امربالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے۔ اگر ایک مسلمان یہ فریضہ ہی ترک کردے گا تو اس کا تارک ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا؟ جب کہ قرآن نے ”إِذَااهْتَدَيْتُمْ“ (جب تم خود ہدایت پر چل رہے ہو) کی شرط عائد کی ہے۔ اسی لئے جب ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا کہ ”لوگو! تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو، میں نے تو نبی (صلى الله عليه وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ برائی ہوتے ہوئے دیکھ لیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے“۔ (مسند أحمد جلد 1ص5، ترمذي نمبر 2178، أبو داود نمبر 4338) اس لئے آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں یا برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لئے یہ نقصان دہ نہیں ہے جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے مجتنب ہو۔ البتہ ایک صورت میں امر بالعروف ونہی المنکر کا ترک جائز ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اندر اس کی طاقت نہ پائے اور اس سے اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس صورت میں «فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيْمَانِ» کے تحت اس کی گنجائش ہے۔ آیت بھی اس صورت کی متحمل ہے۔

التفاسير:

external-link copy
106 : 5

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةُ الْمَوْتِ ؕ— تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِیْ بِهٖ ثَمَنًا وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰی ۙ— وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ ۙ— اللّٰهِ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ ۟

اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا گواه ہونا مناسب ہے جبکہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو وه دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواه تم میں سے ہوں(1) یا غیر لوگوں میں سے دو شخص ہوں اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو اور تمہیں موت آ جائے(2) اگر تم کو شبہ ہو تو ان دونوں کو بعد نماز روک لو پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس قسم کے عوض کوئی نفع نہیں لینا چاہتے(3) اگر چہ کوئی قرابت دار بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی بات کو ہم پوشیده نہ کریں گے، ہم اس حالت میں سخت گنہگار ہوں گے۔ info

(1) تم میں سے ہوں کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہوں اور بعض نے کہا ہے کہ موصی (وصیت کرنے والے) کے قبیلے سے ہوں۔ اسی طرح ”آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ“ میں دو مفہوم ہوں گے یعنی ”مِنْ غَيْرِكُمْ“ سے مراد یا غیر مسلم (اہل کتاب) ہوں گے یا موصی کے قبیلے کے علاوہ کسی اور قبیلے سے۔
(2) یعنی سفر میں کوئی ایسا شدید بیمار ہوجائے کہ جس سے زندہ بچنے کی امید نہ ہو تو وہ سفر میں دو عادل گواہ بنا کر جو وصیت کرنا چاہے، کردے۔
(3) یعنی مرنے والےمُوصِي کے ورثا کو شک پڑ جائے کہ ان اوصیا نے مال میں خیانت یا تبدیلی کی ہے تو وہ نماز کے بعد یعنی لوگوں کی موجودگی میں ان سے قسم لیں اور وہ قسم کھا کے کہیں ہم اپنی قسم کے عوض دنیا کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ یعنی جھوٹی قسم نہیں کھا رہے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
107 : 5

فَاِنْ عُثِرَ عَلٰۤی اَنَّهُمَا اسْتَحَقَّاۤ اِثْمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوْمٰنِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْهِمُ الْاَوْلَیٰنِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ لَشَهَادَتُنَاۤ اَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَیْنَاۤ ۖؗ— اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۟

پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وه دونوں گواه کسی گناه کے مرتکب ہوئے ہیں(1) تو ان لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں گناه کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وه دونوں کھڑے ہوئے تھے(2) یہ دونوں کھڑے ہوں پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ بالیقین ہماری یہ قسم ان دونوں کی اس قسم سے زیاده راست ہے اور ہم نے ذرا تجاوز نہیں کیا، ہم اس حالت میں سخت ﻇالم ہوں گے۔ info

(1) یعنی جھوٹی قسمیں کھائیں ہیں۔
(2) ”أَوْلَيَانِ“، أَوْلَى کا تثنیہ ہے، مراد ہے میت یعنی موصی (وصیت کرنے والے) کے قریب ترین دو رشتے دار ”مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ ...“ کا مطلب یہ ہے جن کے مقابلے پر گناہ کا ارتکاب ہوا تھا یعنی جھوٹی قسم کا ارتکاب کرکے ان کو ملنے والا مال ہڑپ کرلیا تھا۔”الأوْلَيَانِ“ یہ یا تو”هُمَا“ مبتدا محذوف کی خبر ہے یا”يَقُومَانِ“ یا ”آخَرَانِ“ کی ضمیر سے بدل ہے۔ یعنی یہ دو قریبی رشتے دار، ان کی جھوٹی قسموں کے مقابلے میں اپنی قسم دیں گے۔

التفاسير:

external-link copy
108 : 5

ذٰلِكَ اَدْنٰۤی اَنْ یَّاْتُوْا بِالشَّهَادَةِ عَلٰی وَجْهِهَاۤ اَوْ یَخَافُوْۤا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌ بَعْدَ اَیْمَانِهِمْ ؕ— وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاسْمَعُوْا ؕ— وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ۟۠

یہ قریب ذریعہ ہے اس امر کا کہ وه لوگ واقعہ کو ٹھیک طور پر ﻇاہر کریں یا اس بات سے ڈر جائیں کہ ان سے قسمیں لینے کے بعد قسمیں الٹی پڑ جائیں گی(1) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سنو! اور اللہ تعالیٰ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔ info

(1) یہ اس فائدے کا ذکر ہے جو اس حکم میں پنہاں ہے جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے وہ یہ کہ یہ طریقہ اختیار کرنےمیں اوصیا صحیح صحیح گواہی دیں گے کیونکہ انہیں خطرہ ہوگا کہ اگر ہم نے خیانت یا دروغ گوئی یا تبدیلی کا ارتکاب کیا تو یہ کاروائیاﮞ خود ہم پر الٹ سکتی ہیں۔ اس واقعہ کی شان نزول میں بدیل بن ابی مریم کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شام تجارت کی غرض سے گئے، وہاں بیمار اور قریب المرگ ہوگئے، ان کے پاس سامان اور چاندی کا ایک پیالہ تھا، جو انہوں نے دو عیسائیوں کے سپرد کرکے اپنے رشتہ داروں تک پہنچانے کی وصیت کردی اور وہ خود فوت ہوگئے، یہ دونوں وصی جب واپس آئے تو پیالہ تو انہوں نے بیچ کر پیسے آپس میں تقسیم کرلئے اور باقی سامان ورثا کو پہنچا دیا۔ سامان میں ایک رقعہ بھی تھا جس میں سامان کی فہرست تھی جس کی رو سے چاندی کا پیالہ گم تھا، ان سے کہا گیا تو انہوں نے جھوٹی قسم کھالی لیکن بعد میں پتہ چل گیا کہ وہ پیالہ انہوں نے فلاں صراف کو بیچا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ان غیرمسلموں کے مقابلے میں قسمیں کھا کر ان سے پیالے کی رقم وصول کی۔ یہ روایت تو سنداً ضعیف ہے۔ (ترمذي نمبر 3059، بہ تحقيق أحمد شاكر- مصر) تاہم ایک دوسری سند سے حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) سے بھی مختصراً یہ مروی ہے، جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ (صحيح ترمذي، جلد 3، نمبر 2449)

التفاسير: