(1) ”سَمَّاعُونَ“ کے معنی (بہت زیادہ سننے والے) اس کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں، جاسوسی کرنے کے لئے زیادہ باتیں سننا یا دوسروں کی باتیں ماننے اور قبول کرنے کے لئے سننا۔ بعض مفسرین نے پہلے معنی مراد لئے ہیں اور بعض نے دوسرے۔
(1) ”لِلَّذِينَ هَادُوا“ اس کا تعلق ”يَحْكُمْ“ سے ہے۔ یعنی یہودیوں سے متعلق فیصلے کرتے تھے۔
(2) ”أَسْلَمُوا“ یہ ”نَبِيِّينَ“ کی صفت بیان کی کہ وہ سارے انبیاء دین اسلام ہی کے پیروکار تھے جس کی طرف محمد (صلى الله عليه وسلم) دعوت دے رہے ہیں۔ یعنی تمام پیغمبروں کا دین ایک ہی رہا ہے۔ اسلام جس کی بنیادی دعوت یہ تھی کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ ہر نبی نے سب سے پہلے اپنی قوم کو یہی دعوت توحید واخلاص پیش کی «وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنَا فَاعْبُدُونِ» (الأنبياء: 25) ”ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، پس تم سب میری ہی عبادت کرو“۔ اسی کو قرآن میں الدين بھی کہا گیا ہے۔ جیسا کہ سورۂ شوریٰ کی آیت 13 «شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا» الآية میں کہا گیا ہے، جس میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے لئے ہم نے وہی دین مقرر کیا ہے جو آپ سے قبل دیگر انبیاء کے لئے کیا تھا۔
(3) چنانچہ انہوں نے تورات میں کوئی تغیر وتبدل نہیں کیا، جس طرح بعد میں لوگوں نے کیا۔
(4) کہ یہ کتاب کمی بیشی سے محفوظ ہے اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔
(5) یعنی لوگوں سے ڈر کر تورات کے اصل احکام پر پردہ مت ڈالو، نہ دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لئے ان میں رد و بدل کرو۔
(6) پھر تم کیسے ایمان کے بدلے کفر پر راضی ہوگئے ہو؟
(1) جب تورات میں جان کے بدلے جان اور زخموں میں قصاص کا حکم دیا گیا تھا تو پھر یہودیوں کے ایک قبیلے (بنونضیر) کا دوسرے قبیلے (بنوقریظہ) کے ساتھ اس کے برعکس معاملہ کرنا اور اپنے مقتول کی دیت دوسرے قبیلے کے مقتول کی بہ نسبت دوگنا رکھنے کا کیا جواز ہے؟ جیسا کہ اس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزری۔
(2) یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس قبیلے نے مذکورہ فیصلہ کیا تھا، یہ اللہ کے نازل کردہ حکم کے خلاف تھا اور اس طرح انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ گویا انسان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ احکامات الٰہی کو اپنائے، اسی کے مطابق فیصلے کرے اور زندگی کے تمام معاملات میں اس سے رہنمائی حاصل کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو بارگاہ الٰہی میں ظالم متصور ہوگا، فاسق متصور ہوگا اور کافر متصورہوگا۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے تینوں لفظ استعمال کرکے اپنے غضب اور ناراضگی کا بھرپور اظہار فرما دیا۔ اس کے بعد بھی انسان اپنے ہی خود ساختہ قوانین یا اپنی خواہشات ہی کو اہمیت دے تو اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہوگی؟
ملحوظة:علمائے اصولیین نے لکھا ہے کہ پچھلی شریعت کا حکم، اگر اللہ نے برقرار رکھا ہے تو ہمارے لئے بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہے اور اس آیت میں بیان کردہ حکم غیر منسوخ ہے اس لئے یہ بھی شریعت اسلامیہ ہی کے احکام ہیں جیسا کہ احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث سے «النَّفْسَ بِالنَّفْسِ» ( جان، بدلے جان کے) کے عموم سے دو صورتیں خارج ہوں گی۔ کہ کوئی مسلمان اگر کسی کافر کو قتل کر دے تو قصاص میں اس کافر کے بدلے مسلمان کو، اسی طرح غلام کے بدلے آزاد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، فتح الباری ونیل الاوطار وغیرہ)