(1) یعنی یہ تیرے بارےمیں جو اس طرح اناپ شناب جھوٹ اور غلط سلط باتیں کرتے رہتےہیں، کیا ان کی عقلیں ان کو یہی سجھاتی ہیں؟
(2) نہیں بلکہ یہ سرکش اورگمراہ لوگ ہیں،اور یہی سرکشی اور گمراہی انہیں ان باتوں پر برانگیختہ کرتی ہے۔
(1) یعنی اگر یہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں کہ یہ قرآن محمد (صلى الله عليه وسلم) کا اپنا گھڑا ہوا ہے تو پھر یہ بھی اس جیسی کتاب بنا کر پیش کر دیں جو نظم، اعجاز وبلاغت، حسن بیان، ندرت اسلوب، تعین حقائق اور حل مسائل میں اس کا مقابلہ کر سکے۔
(1) یعنی اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ انہیں کسی بات کا حکم دے یاکسی بات سے منع کرے۔ لیکن جب ایسا نہیں ہے بلکہ انہیں ایک پیدا کرنے والے نے پیداکیا ہے، تو ظاہر ہے اس کا انہیں پیدا کرنے کا ایک خاص مقصد ہے، وہ انہیں پیدا کر کے یوں ہی کس طرح چھوڑ دے گا؟
(2) یعنی یہ خود بھی اپنے خالق نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ کے خالق ہونے کااعتراف کرتے ہیں۔
(1) کہ یہ جس کو چاہیں روزی دیں اور جس کو چاہیں نہ دیں یاجس کو چاہیں نبوت سے نوازیں۔
(2) مُصَيْطِرٌ یا مُسَيْطِرٌ، سَطْرٌ سے ہے، لکھنے والا، جو محافظ ونگران ہو، وہ چونکہ ساری تفصیلات لکھتا ہے، اس لیے یہ محافظ اورنگران کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کیا اللہ کے خزانوں یا اس کی رحمتوں پر ان کا تسلط ہے کہ جس کو چاہیں دیں یا نہ دیں۔
(1) یعنی کیا یہ ان کا دعویٰ ہے کہ سیڑھی کے ذریعے سے یہ بھی محمد ﹲ کی طرح آسمانوں پر جا کر ملائکہ کی باتیں یا ان کی طرف جو وحی کی جاتی ہے، وہ سن آئے ہیں۔
(1) یعنی ہمارے پیغمبر کے ساتھ، جس سے اس کی ہلاکت واقع ہو جائے۔
(2) یعنی کید ومکر ان ہی پرالٹ پڑے گا اور سارا نقصان انہی کو ہو گا۔ جیسا فرمایا : «وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلا بِأَهْلِهِ» (فاطر:43) چنانچہ بدر میں یہ کافر مارے گئے اور بھی بہت سی جگہوں پر ذلت و رسوائی سے دوچار ہوئے۔
(1) مطلب ہے کہ اپنے کفر وعنادسے پھر بھی باز نہ آئیں گے، بلکہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ عذاب نہیں، بلکہ ایک پر ایک بادل چڑھا آرہا ہے، جیساکہ بعض موقعوں پر ایسا ہوتاہے۔
(1) یعنی دنیامیں، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: «وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ» (الم السجدة:21)۔
(2) اس بات سے کہ دنیا کے یہ عذاب اور مصائب، اس لیےہیں تاکہ انسان اللہ کی طرف رجوع کریں۔ یہ نکتہ چونکہ نہیں سمجھتے اس لیے گناہوں سے تائب نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ پہلے سے بھی زیادہ گناہ کرنے لگ جاتےہیں۔ جس طرح ایک حدیث میں فرمایا کہ ”منافق جب بیمار ہو کر صحت مند ہوجاتا ہے تو اس کی مثال اونٹ کی سی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اسے کیوں رسیوں سے باندھا گیا۔ اور کیوں کھلا چھوڑ دیا گیا؟“ (أبو داود، كتاب الجنائز، نمبر 3089)۔
(1) اس کھڑے ہونے سے کون سا کھڑا ہونا مراد ہے؟ بعض کہتےہیں جب نماز کے لیے کھڑے ہوں۔ جیساکہ آغاز نماز میں «سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ» . . . پڑھی جاتی ہے۔ بعض کہتے ہیں، جب نیند سے بیدار ہو کر کھڑے ہوں۔ اس وقت بھی اللہ کی تسبیح و تحمید مسنون ہے۔ بعض کہتےہیں کہ جب کسی مجلس سےکھڑے ہوں۔ جیسے حدیث میں آتا ہے۔ جو شخص کسی مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھ لے گا تو یہ اس کی مجلس کے گناہوں کاکفارہ ہو جائے گا۔ «سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ» (سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب ما يقول إذا قام من مجلسه)۔
(1) اس سے مراد قیام اللیل۔ یعنی نماز تہجد ہے،جو عمر بھر نبی ﹲ کا معمول رہا۔
(2) أَيْ: وَقْت إِدْبَارِهَا مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ اس سےمراد فجر کی دو سنتیں ہیں، نوافل میں سب سے زیادہ اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم حفاظت فرماتے تھے۔ اور ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فجر کی دو سنتیں دنیا و مافیہا سے بہترہے“ (صحيح بخاري، كتاب التهجد، باب تعاهد ركعتي الفجر ومن سماها تطوعا ، وصحيح مسلم، كتاب الصلاة باب استحباب ركعتي الفجر)۔