قۇرئان كەرىم مەنىلىرىنىڭ تەرجىمىسى - ئۇردۇچە تەرجىمىسى - مۇھەممەد جوناكرى

بەت نومۇرى:close

external-link copy
73 : 16

وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَیْـًٔا وَّلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ۟ۚ

اور وه اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انہیں کچھ بھی تو روزی نہیں دے سکتے اور نہ کچھ قدرت رکھتے ہیں.(1) info
التفاسير:

external-link copy
74 : 16

فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۟

پس اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں مت بناؤ(1) اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے. info

(1) یعنی اللہ کو چھوڑ کر عبادت بھی ایسے لوگوں کی کرتے ہیں جن کے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں۔
(2) جس طرح مشرکین مثالیں دیتے ہیں کہ بادشاہ سے ملنا ہو یا اس سے کوئی کام ہو تو کوئی براہ راست بادشاہ سے نہیں مل سکتا ہے۔ پہلے اسے بادشاہ کے مقربین سے رابطہ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر بادشاہ تک اس کی رسائی ہوتی ہے اسی طرح اللہ کی ذات بھی بہت اعلی اور اونچی ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ہم ان معبودوں کو ذریعہ بناتے ہیں یا بزرگوں کا وسیلہ پکڑتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: تم اللہ کو اپنے پر قیاس مت کرو نہ اس قسم کی مثالیں دو۔ اس لیے کہ وہ تو واحد ہے، اس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔ پھر بادشاہ نہ تو عالم الغیب ہے، نہ حاضر و ناظر نہ سمیع وبصیر۔ کہ وہ بغیر کسی ذریعے کے رعایا کے حالات وضروریات سے آگاہ ہو جائے جب کہ اللہ تعالٰی تو ظاہر وباطن اور حاضر غائب ہرچیز کا علم رکھتا ہے، رات کی تاریکیوں میں ہونے والے کاموں کو بھی دیکھتا ہے اور ہر ایک کی فریاد سننے پر بھی قادر ہے۔ بھلا ایک انسانی بادشاہ اور حاکم کا اللہ تعالٰی کے ساتھ کیا مقابلہ اور موازنہ؟

التفاسير:

external-link copy
75 : 16

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْءٍ وَّمَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ یُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّجَهْرًا ؕ— هَلْ یَسْتَوٗنَ ؕ— اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ؕ— بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۟

اللہ تعالیٰ ایک مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک غلام ہے دوسرے کی ملکیت کا، جو کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا اور ایک اور شخص ہے جسے ہم نے اپنے پاس سے معقول روزی دے رکھی ہے، جس میں سے وه چھپے کھلے خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ سب برابر ہوسکتے ہیں(1) ؟ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے سب تعریف ہے، بلکہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے. info

(1) بعض کہتے ہیں کہ یہ غلام اور آزاد کی مثال ہے کہ پہلا شخص غلام اور دوسرا آزاد ہے۔ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے بعض کہتے ہیں کہ یہ مومن اور کافر کی مثال ہے۔ پہلا کافر اور دوسرا مومن ہے۔ یہ برابر نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالٰی اور اصنام (معبودانِ باطلہ) کی مثال ہے، پہلے سے مراد اصنام اور دوسرے سے اللہ ہے۔ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے مطلب یہی ہے کہ ایک غلام اور آزاد، باوجود اس بات کے کہ دونوں انسان ہیں، دونوں اللہ کی مخلوق ہیں اور بھی بہت سی چیزیں دونوں کے درمیان مشترکہ ہیں، اس کے باوجود رتبہ اور شرف اور فضل و منزلت میں تم دونوں کو برابر نہیں سمجھتے تو اللہ تعالٰی اور پتھر کی ایک مورتی یا قبر کی ڈھیری، یہ دونوں کس طرح برابر ہو سکتے ہیں؟

التفاسير:

external-link copy
76 : 16

وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبْكَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْءٍ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰی مَوْلٰىهُ ۙ— اَیْنَمَا یُوَجِّهْهُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ ؕ— هَلْ یَسْتَوِیْ هُوَ ۙ— وَمَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ— وَهُوَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۟۠

اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے(1) ، دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وه اپنے مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیجے وه کوئی بھلائی نہیں ﻻتا، کیا یہ اور وه جو عدل کا حکم دیتا ہے(2) اور ہے بھی سیدھی راه پر، برابر ہوسکتے ہیں؟ info

(1) یہ ایک اور مثال ہے جو پہلے سے زیادہ واضح ہے۔
(2) اور ہر کام کرنے پر قادر ہے کیونکہ ہر بات بولتا اور سمجھتا ہے اور ہے بھی سیدھی راہ یعنی دین اور سیرت صالحہ پر۔ یعنی کمی بیشی سے پاک۔ جس طرح یہ دونوں برابر نہیں، اسی طرح اللہ تعالٰی اور وہ چیزیں، جن کو لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، برابر نہیں ہو سکتے۔

التفاسير:

external-link copy
77 : 16

وَلِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؕ— وَمَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۟

آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے(1) ۔ اور قیامت کا امر تو ایسا ہی ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا، بلکہ اس سے بھی زیاده قریب۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.(2) info

(1) یعنی آسمان اور زمین میں جو چیزیں غائب ہیں اور وہ بیشمار ہیں اور انہی میں قیامت کا علم ہے۔ ان کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس لئے عبادت کے لائق بھی صرف ایک اللہ ہے نہ کہ وہ پتھر کے بت جن کو کسی چیز کا علم نہیں نہ وہ کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہیں۔
(2) یعنی اس کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے کہ وسیع وعریض کائنات اس کے حکم سے پلک جھپکنے میں بلکہ اس سے بھی کم لمحے میں تباہ برباد ہو جائے گی۔ یہ بات بطور مبالغہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت واقعہ ہے کیونکہ اس کی قدرت غیر متناہی ہے۔ جس کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے، اس کے ایک لفظ ”کُنْ“ سے سب کچھ ہو جاتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ تو یہ قیامت بھی اس کے کُنْ (ہو جا) کہنے سے برپا ہو جائے گی۔

التفاسير:

external-link copy
78 : 16

وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْـًٔا ۙ— وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـِٕدَةَ ۙ— لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۟

اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے(1) ، اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے(2) کہ تم شکر گزاری کرو.(3) info

(1) ”شَیْئًا“ نکرہ ہے، تم کچھ نہیں جانتے تھے، نہ نیکی و بد بختی کو، نہ فائدے اور نقصان کو۔
(2) تاکہ کانوں کے ذریعے تم آوازیں سنو، آنکھوں کے ذریعے سے چیزوں کو دیکھو اور دل، یعنی عقل (کیونکہ عقل کا مرکز دل ہے) دی، جس سے چیزوں کے درمیان تمیز کر سکو اور نفع نقصان پہچان سکو، جوں جوں انسان بڑا ہوتا ہے، اس کی عقل و حواس میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے، حتیٰ کہ جب انسان شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کی یہ صلاحیتیں بھی قوی ہو جاتی ہیں، حتیٰ کہ پھر کمال کو پہنچ جاتی ہیں۔ (3) ﯾﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﺻﻼﺣﯿﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﺗﯿﮟ اللہ تعالی ﻧﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻋﻄﺎ ﻛﯽ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻥ ﺍﻋﻀﺎ ﻭﺟﻮﺍﺭﺡ ﻛﻮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻛﺮﮮ ﺟﺲ ﺳﮯ اللہ تعالی ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ۔ ﺍﻥ ﺳﮯ اللہﹴ ﻛﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻭﺍﻃﺎﻋﺖ ﻛﺮﮮ ۔ ﯾﮩﯽ اللہ ﻛﯽ ﺍﻥ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ کا ﻋﻤﻠﯽ ﺷﻜﺮ ﮨﮯ ۔ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ کہ (اللہ تعالی فرماتا ہے): ”ﻣﯿﺮﺍ ﺑﻨﺪﮦ ﺟﻦ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﻛﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻗﺮﺏ ﺣﺎﺻﻞ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻭﮦ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻓﺮﺽ ﻛﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﺯﯾﮟ ﻧﻮﺍﻓﻞ ﻛﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺮﺏ ﺣﺎﺻﻞ ﻛﺮﻧﮯ ﻛﯽ ﺳﻌﯽ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ, حتی ﻛﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻛﺮﻧﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻛﺮﻧﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ, ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ کا کان ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﮯ, آنکھ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺩﯾﻜﮭﺘﺎ ﮨﮯ, ہاتھ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﭘﻜﮍﺗﺎ ﮨﮯ, پاؤں ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ, ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ مجھ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ مجھ ﺳﮯ ﻛﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ“۔ (ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ, ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﺮﻗﺎﻕ, ﺑﺎﺏ ﺍﻟﺘﻮﺍﺿﻊ) ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ کا ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﻏﻠﻂ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﻟﮯ ﻛﺮ اولیاء اللہ ﻛﻮ ﺧﺪﺍﺋﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﺍﺕ کا ﺣﺎﻣﻞ ﺑﺎﻭﺭ ﻛﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺣﺎﻻﻧﻜﮧ ﺣﺪﯾث کا ﻭﺍﺿﺢ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺟﺐ ﺑﻨﺪﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻭﻋﺒﺎﺩﺕ اللہ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﺎﻟﺺ ﻛﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ کا ہر کام ﺻﺮﻑ اللہ کی ﺭﺿﺎ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ, ﺍﭘﻨﮯ کانوں ﺳﮯ ﻭﮨﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﻜﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﮨﯽ ﭼﯿﺰ ﺩﯾﻜﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻛﯽ اللہ ﻧﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯼ ﮨﮯ, ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﻛﻮ ہاتھ ﺳﮯ ﭘﻜﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭼﻞ ﻛﺮ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻭﮨﯽ ﭼﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻛﻮ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻧﮯ ﺭﻭﺍ ﺭﻛﮭﺎ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﻥ ﻛﻮ اللہ ﻛﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﺮﺗﺎ ﺑﻠﻜﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔

التفاسير:

external-link copy
79 : 16

اَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِ ؕ— مَا یُمْسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُ ؕ— اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ۟

کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو تابع فرمان ہو کر فضا میں ہیں، جنہیں بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی اور تھامے ہوئے نہیں(1) ، بیشک اس میں ایمان ﻻنے والے لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں. info

(1) یہ اللہ تعالٰی ہی ہے جس نے پرندوں کو اس طرح اڑنے کی اور ہواؤں کو انہیں اپنے دوش پر اٹھائے رکھنے کی طاقت بخشی۔

التفاسير: