(1) یعنی اللہ کو چھوڑ کر عبادت بھی ایسے لوگوں کی کرتے ہیں جن کے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں۔
(2) جس طرح مشرکین مثالیں دیتے ہیں کہ بادشاہ سے ملنا ہو یا اس سے کوئی کام ہو تو کوئی براہ راست بادشاہ سے نہیں مل سکتا ہے۔ پہلے اسے بادشاہ کے مقربین سے رابطہ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر بادشاہ تک اس کی رسائی ہوتی ہے اسی طرح اللہ کی ذات بھی بہت اعلی اور اونچی ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ہم ان معبودوں کو ذریعہ بناتے ہیں یا بزرگوں کا وسیلہ پکڑتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: تم اللہ کو اپنے پر قیاس مت کرو نہ اس قسم کی مثالیں دو۔ اس لیے کہ وہ تو واحد ہے، اس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔ پھر بادشاہ نہ تو عالم الغیب ہے، نہ حاضر و ناظر نہ سمیع وبصیر۔ کہ وہ بغیر کسی ذریعے کے رعایا کے حالات وضروریات سے آگاہ ہو جائے جب کہ اللہ تعالٰی تو ظاہر وباطن اور حاضر غائب ہرچیز کا علم رکھتا ہے، رات کی تاریکیوں میں ہونے والے کاموں کو بھی دیکھتا ہے اور ہر ایک کی فریاد سننے پر بھی قادر ہے۔ بھلا ایک انسانی بادشاہ اور حاکم کا اللہ تعالٰی کے ساتھ کیا مقابلہ اور موازنہ؟
(1) بعض کہتے ہیں کہ یہ غلام اور آزاد کی مثال ہے کہ پہلا شخص غلام اور دوسرا آزاد ہے۔ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے بعض کہتے ہیں کہ یہ مومن اور کافر کی مثال ہے۔ پہلا کافر اور دوسرا مومن ہے۔ یہ برابر نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالٰی اور اصنام (معبودانِ باطلہ) کی مثال ہے، پہلے سے مراد اصنام اور دوسرے سے اللہ ہے۔ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے مطلب یہی ہے کہ ایک غلام اور آزاد، باوجود اس بات کے کہ دونوں انسان ہیں، دونوں اللہ کی مخلوق ہیں اور بھی بہت سی چیزیں دونوں کے درمیان مشترکہ ہیں، اس کے باوجود رتبہ اور شرف اور فضل و منزلت میں تم دونوں کو برابر نہیں سمجھتے تو اللہ تعالٰی اور پتھر کی ایک مورتی یا قبر کی ڈھیری، یہ دونوں کس طرح برابر ہو سکتے ہیں؟
(1) یہ ایک اور مثال ہے جو پہلے سے زیادہ واضح ہے۔
(2) اور ہر کام کرنے پر قادر ہے کیونکہ ہر بات بولتا اور سمجھتا ہے اور ہے بھی سیدھی راہ یعنی دین اور سیرت صالحہ پر۔ یعنی کمی بیشی سے پاک۔ جس طرح یہ دونوں برابر نہیں، اسی طرح اللہ تعالٰی اور وہ چیزیں، جن کو لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، برابر نہیں ہو سکتے۔
(1) یعنی آسمان اور زمین میں جو چیزیں غائب ہیں اور وہ بیشمار ہیں اور انہی میں قیامت کا علم ہے۔ ان کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس لئے عبادت کے لائق بھی صرف ایک اللہ ہے نہ کہ وہ پتھر کے بت جن کو کسی چیز کا علم نہیں نہ وہ کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہیں۔
(2) یعنی اس کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے کہ وسیع وعریض کائنات اس کے حکم سے پلک جھپکنے میں بلکہ اس سے بھی کم لمحے میں تباہ برباد ہو جائے گی۔ یہ بات بطور مبالغہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت واقعہ ہے کیونکہ اس کی قدرت غیر متناہی ہے۔ جس کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے، اس کے ایک لفظ ”کُنْ“ سے سب کچھ ہو جاتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ تو یہ قیامت بھی اس کے کُنْ (ہو جا) کہنے سے برپا ہو جائے گی۔
(1) ”شَیْئًا“ نکرہ ہے، تم کچھ نہیں جانتے تھے، نہ نیکی و بد بختی کو، نہ فائدے اور نقصان کو۔
(2) تاکہ کانوں کے ذریعے تم آوازیں سنو، آنکھوں کے ذریعے سے چیزوں کو دیکھو اور دل، یعنی عقل (کیونکہ عقل کا مرکز دل ہے) دی، جس سے چیزوں کے درمیان تمیز کر سکو اور نفع نقصان پہچان سکو، جوں جوں انسان بڑا ہوتا ہے، اس کی عقل و حواس میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے، حتیٰ کہ جب انسان شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کی یہ صلاحیتیں بھی قوی ہو جاتی ہیں، حتیٰ کہ پھر کمال کو پہنچ جاتی ہیں۔ (3) ﯾﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﺻﻼﺣﯿﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﺗﯿﮟ اللہ تعالی ﻧﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻋﻄﺎ ﻛﯽ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻥ ﺍﻋﻀﺎ ﻭﺟﻮﺍﺭﺡ ﻛﻮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻛﺮﮮ ﺟﺲ ﺳﮯ اللہ تعالی ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ۔ ﺍﻥ ﺳﮯ اللہﹴ ﻛﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻭﺍﻃﺎﻋﺖ ﻛﺮﮮ ۔ ﯾﮩﯽ اللہ ﻛﯽ ﺍﻥ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ کا ﻋﻤﻠﯽ ﺷﻜﺮ ﮨﮯ ۔ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ کہ (اللہ تعالی فرماتا ہے): ”ﻣﯿﺮﺍ ﺑﻨﺪﮦ ﺟﻦ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﻛﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻗﺮﺏ ﺣﺎﺻﻞ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻭﮦ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻓﺮﺽ ﻛﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﺯﯾﮟ ﻧﻮﺍﻓﻞ ﻛﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺮﺏ ﺣﺎﺻﻞ ﻛﺮﻧﮯ ﻛﯽ ﺳﻌﯽ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ, حتی ﻛﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻛﺮﻧﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻛﺮﻧﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ, ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ کا کان ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﮯ, آنکھ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺩﯾﻜﮭﺘﺎ ﮨﮯ, ہاتھ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﭘﻜﮍﺗﺎ ﮨﮯ, پاؤں ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ, ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ مجھ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ مجھ ﺳﮯ ﻛﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ“۔ (ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ, ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﺮﻗﺎﻕ, ﺑﺎﺏ ﺍﻟﺘﻮﺍﺿﻊ) ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ کا ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﻏﻠﻂ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﻟﮯ ﻛﺮ اولیاء اللہ ﻛﻮ ﺧﺪﺍﺋﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﺍﺕ کا ﺣﺎﻣﻞ ﺑﺎﻭﺭ ﻛﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺣﺎﻻﻧﻜﮧ ﺣﺪﯾث کا ﻭﺍﺿﺢ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺟﺐ ﺑﻨﺪﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻭﻋﺒﺎﺩﺕ اللہ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﺎﻟﺺ ﻛﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ کا ہر کام ﺻﺮﻑ اللہ کی ﺭﺿﺎ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ, ﺍﭘﻨﮯ کانوں ﺳﮯ ﻭﮨﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﻜﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﮨﯽ ﭼﯿﺰ ﺩﯾﻜﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻛﯽ اللہ ﻧﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯼ ﮨﮯ, ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﻛﻮ ہاتھ ﺳﮯ ﭘﻜﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭼﻞ ﻛﺮ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻭﮨﯽ ﭼﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻛﻮ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻧﮯ ﺭﻭﺍ ﺭﻛﮭﺎ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﻥ ﻛﻮ اللہ ﻛﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﺮﺗﺎ ﺑﻠﻜﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔
(1) یہ اللہ تعالٰی ہی ہے جس نے پرندوں کو اس طرح اڑنے کی اور ہواؤں کو انہیں اپنے دوش پر اٹھائے رکھنے کی طاقت بخشی۔