Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri

اِنسان

external-link copy
1 : 76

هَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْـًٔا مَّذْكُوْرًا ۟

یقیناً گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں(1) جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا. info

(1) ھل بمعنی قد ہے جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے ،الانسان سے مراد 'بعض کے نزدیک ابو البشیر یعنی انسان اول حضرت آدم ہیں اور حِیْن (ایک وقت) سے مراد، روح پھونکے جانے سے پہلے کا زمانہ ہے، جو چالیس سال ہے اور اکثر مفسرین کے نزدیک الانسان کا لفظ بطور جنس کے استعمال ہوا ہے اور حِیْن، سے مراد حمل یعنی رحم مادر کی مدت ہے جس میں وہ قابل ذکر چیز نہیں ہوتا۔ اس میں گویا انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک پیکر حسن و جمال کی صورت میں جب باہر آتا ہے تو رب کے سامنے اکڑتا اور اتراتا ہے، اسے اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہیے کہ میں تو وہی ہوں جب میں عالم نیست میں تھا، تو مجھے کون جانتا تھا؟

التفاسير:

external-link copy
2 : 76

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ۖۗ— نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ۟ۚ

بیشک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لیے(1) پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا.(2) info

(1) ملے جلے مطلب، مرد اور عورت دونوں کے پانی کا ملنا پھر ان کا مختلف اطوار سے گزرنا ہے۔ پیدا کرنے کا مقصد انسان کی آزمائش ہے۔ «لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلا» (الملک:6)

التفاسير:

external-link copy
3 : 76

اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا ۟

ہم نے اسے راه دکھائی اب خواه وه شکر گزار بنے خواه ناشکرا.(1) info

(1) یعنی اسے سماعت اور بصارت کی قوتیں عطا کیں، تاکہ وہ سب کچھ دیکھ سکے اور سن سکے اور اس کے بعد اطاعت یا انکاری دونوں راستوں میں کسی ایک کا انتخاب کر سکے۔
(2) یعنی مذکورہ قوتوں اور صلاحیتوں کے علاوہ ہم نے خود بھی انبیاء علیہ السلام، اپنی کتابوں اور داعیان حق کے ذریعے سے صحیح راستے کو بیان اور واضح کردیا ہے اب یہ اس کی مرضی ہے کہ اطاعت الہی کا راستہ اختیار کر کے شکر گزار بندہ بن جائے یا معصیت کا راستہ اختیار کر کے اس کا ناشکرا بن جائے۔ جیسے ایک حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: «كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُوبِقُهَا أَوْ مُعْتِقُهَا»، (صحیح مسلم، کتاب الطهارة، باب فضل الوضوء) ”ہر شخص اپنے نفس کی خریدو فروخت کرتا ہے، پس اسے ہلاک کرتا ہے یا اسے آزاد کرالیتا ہے“۔ یعنی اپنے عمل و کسب کے ذریعے سے ہلاک یا آزاد کرالیتا ہے، اگر شر کمائے گا تو اپنے نفس کو ہلاک اور خیر کمائے گا تو نفس کو آزاد کرالے گا۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 76

اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَلٰسِلَاۡ وَاَغْلٰلًا وَّسَعِیْرًا ۟

یقیناً ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں اور طوق اور شعلوں والی آگ تیار کر رکھی ہے. info

(1) یہ اللہ کی دی ہوئی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 76

اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا ۟ۚ

بیشک نیک لوگ وه جام پئیں گے جس کی آمیزش کافور کی ہے.(1) info

(1) اشقیا کے مقابلے میں یہ سعدا کا ذکر ہے، کأس اس جام کو کہتے ہیں جو بھرا ہوا ہو اور چھلک رہا ہو کافور ٹھنڈی اور ایک مخصوص خوشبو کی حامل ہوتی ہے۔ اس کی آمیزش سے شراب کا ذائقہ دو آتشہ اور اس کی خوشبو مشام جان کو معطر کرنے والی ہو جائے گی۔

التفاسير: