แปล​ความหมาย​อัลกุรอาน​ - คำแปลภาษาอูรดู - มุฮัมมัด จุนากุรี

หมายเลข​หน้า​: 128:128 close

external-link copy
9 : 6

وَلَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ ۟

اور اگر ہم اس کو فرشتہ تجویز کرتے تو ہم اس کو آدمی ہی بناتے اور ہمارے اس فعل سے پھر ان پر وہی اشکال ہوتا جو اب اشکال کر رہے ہیں۔(1) info

(1) یعنی اگر ہم فرشتے ہی کو رسول (صلى الله عليه وسلم) بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کرتے تو ظاہر بات ہے کہ وہ فرشتے کی اصل شکل میں تو آ نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس طرح انسان اس سے خوف زدہ ہونے اور قریب ومانوس ہونے کے بجائے، دور بھاگتے اس لئے ناگزیر تھا کہ اسے انسانی شکل میں بھیجا جاتا۔ لیکن یہ تمہارے لیڈر پھر یہی اعتراض اور شبہ پیش کرتے کہ یہ تو انسان ہی ہے، جو اس وقت بھی وہ رسول کی بشریت کے حوالے سے پیش کر رہے ہیں تو پھر فرشتے کے بھیجنے کا بھی کیا فائدہ؟

التفاسير:

external-link copy
10 : 6

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ ۟۠

اور واقعی آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی استہزا کیا گیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کو اس عذاب نے آ گھیرا جس کا تمسخر اڑاتے تھے۔ info
التفاسير:

external-link copy
11 : 6

قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ اَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ ۟

آپ فرما دیجئے کہ ذرا زمین میں چلو پھرو پھر دیکھ لو کہ تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔ info
التفاسير:

external-link copy
12 : 6

قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؕ— قُلْ لِّلّٰهِ ؕ— كَتَبَ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ؕ— لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ ؕ— اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ۟

آپ کہئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجود ہے یہ سب کس کی ملکیت ہے، آپ کہہ دیجئے کہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے، اللہ نے مہربانی فرمانا اپنے اوپر ﻻزم فرما لیا ہے(1) تم کو اللہ قیامت کے روز جمع کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں، جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈاﻻ ہے سو وه ایمان نہیں ﻻئیں گے۔ info

(1) جس طرح حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش پر یہ لکھ دیا «إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي» یقیناً میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے“۔ (صحيح بخاري، كتاب التوحيد، وبدء الخلق، مسلم كتاب التوبة)، لیکن یہ رحمت قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی، کافروں کے لئے رب سخت غضب ناک ہوگا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کی رحمت یقیناً عام ہے، جس سے مومن اور کافر نیک اور بد، فرماں برداراور نافرمان سب ہی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی بھی روزی نافرمانی کرنے کی وجہ سے بند نہیں کرتا، لیکن اس کی رحمت کا یہ عموم صرف دنیا کی حد تک ہے۔ آخرت میں جو کہ دارالجزا ہے، وہاں اللہ کی صفت عدل کا کامل ظہور ہوگا، جس کے نتیجے میں اہل ایمان امان رحمت میں جگہ پائیں گے اور اہل کفر وفسق جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا ہے «وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ» (الأعراف: 156) ”اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے»۔ تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکٰوۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں“۔

التفاسير:

external-link copy
13 : 6

وَلَهٗ مَا سَكَنَ فِی الَّیْلِ وَالنَّهَارِ ؕ— وَهُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۟

اور اللہ ہی کی ملک ہیں وه سب کچھ جو رات میں اور دن میں رہتی ہیں اور وہی بڑا سننے واﻻ بڑا جاننے واﻻ ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
14 : 6

قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ ؕ— قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ ۟

آپ کہیے کہ کیا اللہ کے سوا، جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے واﻻ ہے اور جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانے کو نہیں دیتا، اور کسی کو معبود قرار دوں(1) ، آپ فرما دیجئے کہ مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اسلام قبول کروں اور تو مشرکین میں ہرگز نہ ہونا۔ info

(1) ”وَلِيٌّ“ سے مراد یہاں معبود ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے ورنہ دوست بنانا تو جائز ہے۔

التفاسير:

external-link copy
15 : 6

قُلْ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ۟

آپ کہہ دیجئے کہ میں اگر اپنے رب کا کہنا نہ مانوں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔(1) info

(1) یعنی اگر میں نے بھی رب کی نافرمانی کرتے ہوئے، اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لیا تو میں بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکوں گا۔

التفاسير:

external-link copy
16 : 6

مَنْ یُّصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمَهٗ ؕ— وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ ۟

جس شخص سے اس روز وه عذاب ہٹا دیا جائے تو اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا اور یہ صریح کامیابی ہے۔ info

(1) جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا :«فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ» (آل عمران: 185 ) ”جو آگ سے دور اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہ کامیاب ہوگیا“، اس لئے کہ کامیابی، خسارے سے بچ جانے اور نفع حاصل کرلینے کا نام ہے۔ اور جنت سے بڑھ کر نفع کیا ہوگا؟

التفاسير:

external-link copy
17 : 6

وَاِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ ؕ— وَاِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۟

اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے واﻻ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں۔ اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وه ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے واﻻ ہے۔(1) info

(1) یعنی نفع وضرر کا مالک، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے والا صرف اللہ ہے اور اس کے حکم وقضا کو کوئی رد کرنےوالا نہیں ہے۔ ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے «اللَّهُمَّ لا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ»(صحيح بخاري، كتاب الاعتصام والقدر والدعوات- مسلم كتاب الصلاة والمساجد)۔ ”جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں، اور جس سے تو روک لے اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچاسکتی“، نبی (صلى الله عليه وسلم) ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔

التفاسير:

external-link copy
18 : 6

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ ؕ— وَهُوَ الْحَكِیْمُ الْخَبِیْرُ ۟

اور وہی اللہ اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے برتر ہے(1) اور وہی بڑی حکمت واﻻ اور پوری خبر رکھنے واﻻ ہے۔ info

(1) یعنی تمام گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں، بڑے بڑے جابر لوگ اس کے سامنے بےبس ہیں، وہ ہر چیز پر غالب ہے اور تمام کائنات اس کی مطیع ہے وہ اپنے ہر کام میں حکیم ہے اور ہر چیز سے باخبر ہے، پس اسے معلوم ہے کہ اس کے احسان وعطا کا کون مستحق ہے اور کون غیر مستحق۔

التفاسير: