แปล​ความหมาย​อัลกุรอาน​ - คำแปลภาษาอูรดู - มุฮัมมัด จุนากุรี

หมายเลข​หน้า​:close

external-link copy
62 : 3

اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ ۚ— وَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ ؕ— وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ۟

یقیناً صرف یہی سچا بیان ہے اور کوئی معبود برحق نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے اور بے شک غالب اور حکمت واﻻ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
63 : 3

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِالْمُفْسِدِیْنَ ۟۠

پھر بھی اگر قبول نہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی صحیح طور پر فسادیوں کو جاننے واﻻ ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
64 : 3

قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی كَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیْـًٔا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ؕ— فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۟

آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آو جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں(1) ، نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں(2)۔ پس اگر وه منھ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواه رہو ہم تو مسلمان ہیں۔(3) info

(1) کسی بت کو نہ صلیب کو، نہ آک کو اور نہ کسی اور چیز کو، بلکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں جیسا کہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے۔
(2) یہ ایک تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے حضرت مسیح اور حضرت عزیر علیہما السلام کی ربوبیت (رب ہونے) کا جو عقیدہ گھڑ رکھا ہے یہ غلط ہے، وہ رب نہیں ہیں انسان ہی ہیں۔ دوسرا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے اپنے احبار ورہبان کو حلال وحرام کرنے کا جو اختیار دے رکھا ہے، یہ بھی ان کو رب بنانا ہے جیسا کہ آیت اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ اس پر شاہد ہے، یہ بھی صحیح نہیں ہے، حلال وحرام کا اختیار بھی صرف اللہ ہی کو ہے۔ (ابن کثیر وفتح القدیر )
(3) صحیح بخاری میں ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ہرقل شاہ روم کو مکتوب تحریر فرمایا اور اس میں اسے اس آیت کے حوالے سے قبول اسلام کی دعوت دی اور اسے کہاکہ تو مسلمان ہو جائے گا تو تجھے دہرا اجر ملے گا، ورنہ ساری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔ ”فَأَسْلِمْ تَسْلَمْ، يَؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ“(صحيح بخاري، كتاب بدء الوحي نمبر) ”اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا۔ اسلام لے آ، اللہ تعالیٰ تجھے دوگنا اجر دے گا۔ لیکن اگر تو نے قبول اسلام سے اعراض کیا تو رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہی ہو گا“۔ کیونکہ رعایا کے عدم قبول اسلام کاسبب تو ہی ہوگا۔ اس آیت میں مذکور تین نکات یعنی (1) صرف اللہ کی عبادت کرنا۔(2) اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔(3) اورکسی کو شریعت سازی کا خدائی مقام نہ دینا وہ کلمۂ سواء ہے جس پر اہل کتاب کو اتحاد کی دعوت دی گئی۔ لہٰذا اس امت کے شیرازہ کو جمع کرنے کے لئے بھی ان ہی تین نکات اور اس کلمۂ سواء کو بدرجہ اولیٰ اساس وبنیاد بنانا چاہئے۔

التفاسير:

external-link copy
65 : 3

یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَمَاۤ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰىةُ وَالْاِنْجِیْلُ اِلَّا مِنْ بَعْدِهٖ ؕ— اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۟

اے اہل کتاب! تم ابراہیم کی بابت کیوں جھگڑتے ہو حاﻻنکہ تورات وانجیل تو ان کے بعد نازل کی گئیں، کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے؟(1) info

(1) حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے بارے میں جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی دونوں دعویٰ کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) ان کے دین پر تھے، حالانکہ تورات، جس پر یہودی ایمان رکھتے تھے،اور انجیل جسے عیسائی مانتے تھے، دونوں حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے سینکڑوں برس بعد نازل ہوئیں، پھر حضرت ابراہیم (عليه السلام) یہودی یا عیسائی کس طرح ہو سکتے تھے؟ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) اور موسیٰ (عليه السلام) کے درمیان ایک ہزار سال کا اور حضرت ابراہیم وعیسیٰ علیہما السلام کے درمیان دو ہزار سال کا فاصلہ تھا۔ (قرطبی)

التفاسير:

external-link copy
66 : 3

هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ ؕ— وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۟

سنو! تم لوگ اس میں جھگڑ چکے جس کا تمہیں علم تھا پھر اب اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں؟(1) اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے، info

(1) تمہارے علم ودیانت کا تو یہ حال ہے کہ جن چیزوں کا تمہیں علم ہے یعنی اپنے دین اور اپنی کتاب،کا اس کی بابت تمہارے جھگڑے (جس کا ذکر پچھلی آیت میں کیا جا چکا ہے) بے اصل بھی ہیں اور بے عقلی کا مظہر بھی۔ توپھر تم اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں سرے سے علم ہی نہیں ہے یعنی حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی شان اور ان کی ملت حنیفیہ کے بارے میں، جس کی اساس توحید واخلاص پر ہے۔

التفاسير:

external-link copy
67 : 3

مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا ؕ— وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ ۟

ابراہیم تو نہ یہودی تھے نہ نصرانی تھے بلکہ وه تو یک طرفہ (خالص) مسلمان تھے(1) ، وه مشرک بھی نہیں تھے، info

(1) حَنِيفًا مُسْلِمًا ( یک طرفہ خالص مسلمان) یعنی شرک سے بیزار اور صرف خدائے واحد کے پرستار۔

التفاسير:

external-link copy
68 : 3

اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَهٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ؕ— وَاللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ ۟

سب لوگوں سے زیاده ابراہیم سے نزدیک تر وه لوگ ہیں جنہوں نے ان کا کہا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان ﻻئے(1) ، مومنوں کا ولی اور سہارا اللہ ہی ہے،۔ info

(1) اسی لئے قرآن کریم میں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو ملت ابراہیمی کا اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ «أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا» ( النحل: 123) علاوہ ازیں حدیث میں ہے رسول (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”إِنَّ لِكُلِّ نَبِيّ وُلاةً مِنَ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ وَلِـيِّي مِنْهُمْ أَبِي وَخَلِيلُ رِبِّي عَزّ وَجَلّ“ (ہر نبی کے نبیوں میں سے کچھ دوست ہوتے ہیں، میرے ولی (دوست) ان میں سے میرے باپ اور میرے رب کے خلیل (ابراہیم عليه السلام ہیں)۔ پھر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہی آیت تلاوت فرمائی (ترمذی بحوالہ ابن کثیر )

التفاسير:

external-link copy
69 : 3

وَدَّتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْنَكُمْ ؕ— وَمَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ ۟

اہل کتاب کی ایک جماعت چاہتی ہے کہ تمہیں گمراه کر دیں۔ دراصل وه خود اپنے آپ کو گمراه کر رہے ہیں اور سمجھتے نہیں۔(1) info

(1) یہ یہودیوں کے اس حسد وبغض کی وضاحت ہے جو وہ اہل ایمان سے رکھتے تھے اور اسی عناد کی وجہ سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح وہ خود ہی بے شعوری میں اپنے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
70 : 3

یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَاَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ ۟

اے اہل کتاب تم (باوجود قائل ہونے کے پھر بھی) دانستہ اللہ کی آیات کا کیوں کفر کر رہے ہو؟(1) info

(1) قائل ہونے کا مطلب ہے کہ تمہیں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی صداقت وحقانیت کا علم ہے۔

التفاسير: